برطانیہ کے دارلحکومت لندن میں دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونیوالے حملہ آور کی شناخت عثمان خان کے نام سے ہوگئی ہے، عثمان خان اس سے قبل بھی دہشتگردی کےجرم میں جیل کاٹ چکاتھا۔
گزشتہ روز لندن میں ہونیوالے واقعہ کے حوالے سے عینی شاہد ین نے ٹوئٹر پر فوٹیج جاری کی ہے جس میں کچھ شہریوں کو حملہ آور کو قابو کرتے اور پھر پولیس اہلکاروں کو پہنچتے دیکھا جا سکتا ہے،فوٹیج میں عثمان نے مزاحمت کرتے ہوئے کھڑے ہونے کی کوشش کی، جس پر پولیس اہلکاروں نے انہیں گولی مار دی۔ عثمان نے حملے کے وقت مبینہ طور پر نقلی خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی۔
گزشتہ روز ہونیوالے واقعہ بھلے ہی زیادہ نقصان نہیں ہوا تاہم اس واقعہ نے کئی سوالات اٹھادیئے ہیں ، عثمان خان پہلے ہی دہشت گردی کا سزا یافتہ مجرم تھا اورضمانت پررہا تھا، مجرم ہونے کا پولیس ٹیگ بھی لگا ہوا تھا۔ عثمان خان 2012 میں اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کرسمس کے موقع پر بم حملے کی منصوبہ بندی کے جرم میں جیل کاٹ چکا تھا۔
پاکستانی نژاد عثمان خان نے مبینہ طور پر پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں سے تربیت حاصل کی۔ عثمان خان کو مانیٹرنگ میں رکھا گیاتھاتاہم اس کے باوجود عثمان خان نے دولوگوں کی جان لی اور خود بھی مارا گیا۔
عثمان خان 2012 میں دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ ہونے کے باعث عثمان خان کی معلومات حکام کے پاس موجود تھیں، عثمان خان دسمبر 2018 میں رہا ہوا تھا اور اب اس سلسلے میں ایک اہم انکوائری کا آغاز کر دیا گیا ہے کہ وہ حملہ کرنے میں کس طرح کامیاب ہوا۔
مجرم کے گھروں میں سے ایک میں ہاتھ سے تحریر کردہ ایک فہرست بھی برآمد ہوئی تھی جس میں ان اہداف کے نام درج تھے جنہیں نشانہ بنایا جانا تھا اور ان میں اُس وقت لندن کے میئر بورس جانسن، 2 یہودی مذہبی پیشوا، امریکی سفارت خانہ اور اسٹاک ایکسچینج شامل تھی۔
جس کے بعد اُس وقت عثمان خان کو پبلک پروٹیکشن قانون کے تحت کم از کم 8 سال کی سزا ہوئی تھی، جس کے تحت رہائی کے وقت مجرم کو جرمانے کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے بلکہ اس کے بعد وہ 10سال تک نگرانی کے لائسنس پر رہتا ہے۔
برطانیہ میں ان دنوں کرسمس کی تیاری جاری ہیں ، ایسے موقع پر سیکورٹی انتظامات سخت ہونے چاہئیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ دہشت گردی کامعاملے برطانوی حکام کی نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا لیکن اس واقعے نے حکومت کو ایک بار پھر یہ سوچنے پر ضرور مجبور کردیا ہے کہ سنگین جرائم میں ملوث عادی مجرموں سے رعایت نہ برتی جائے۔
ہالینڈ میں بھی بلیک فرائیڈے سیل کے موقع پر خریداری می مصروف لوگوں پر حملہ کیا گیا جس میں تین نوعمر بچے جان سے گئے۔ یورپ میں اسلام مخالف کارروائیوں کی وجہ سے شدت پسندی کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ حال ہی میں گستاخانہ خاکوں کے مقابلے کی میزبانی کرنیوالے ڈچ سیاستدان گیرٹ والڈرز کے قتل کی سازش کے جرم میں ایک پاکستانی شخص کو دس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
یورپ میں تسلسل کے ساتھ ہونیوالے شدت پسندانہ واقعات کے بعد برطانیہ اور دیگر ممالک کیلئے دہشت گردی کے خطرات میں اضافہ ہوگیا ہے تاہم برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک کو بھی دہشت گردوں کو سزا دینے کے علاوہ ان عوامل پر بھی غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے لوگوں میں اشتعال پھیلتا ہے اور وہ اپنی جان پر کھیل جاتے ہیں۔
یورپی ممالک کی جانب سے آزادی اظہار کی آڑ میں اسلام مخالف پروپیگنڈے اور نفرت انگیز اقدامات لوگوں میں غصے اور عناد کو جنم دیتے ہیں ، اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر تمام مذاہب کی توہین کیخلاف مشترکہ قوانین بنائے جائیں اور مذاہب کی توہین کرنیوالوں کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں تاکہ لوگوں میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پایا جاسکے۔