کسی بھی ملک کی برآمدات میں کمی کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جسے حل نہ کیا جاسکے، کیونکہ جب کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے جو اسباب ہوتے ہیں، انہیں ختم کرنا اور جو نئی ضروریات سامنے آئیں، انہیں پورا کرنا ہی اس کا حل قرار دیا جاسکتا ہے۔
عموماً جب کسی بھی ملک کی برآمدات کم ہوجاتی ہیں تو اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مثلاً معاشی بدحالی یا پھر ایسے ممالک کی معیشت کا سست پڑ جانا جو اس ملک سے اشیائے ضروریہ یا خدمات درآمد کرتے ہوں۔
برآمدات میں کمی کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ پاکستان جو اشیاء برآمد کرنے کا خواہاں ہے، عالمی منڈی میں اس کی ضرورت ہی نہ ہو یا دیگر ممالک اسے کم قیمت پر فروخت کر رہے ہوں۔
عالمی تجارتی پالیسیوں میں ردو بدل یا پھر برآمدات کی ٹرانسپورٹیشن کیلئے کرایوں میں اضافہ بھی برآمدات میں کمی کی وجہ بن سکتا ہے جو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کیلئے برآمدات کا عمل مشکل کرسکتا ہے۔ اسی طرح سپلائی چین اور پروڈکشن کے مسائل بھی اس کی اہم وجہ ہوسکتے ہیں۔
کم برآمدات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایکسچینج ریٹس کے اعتبار سے اس ملک کی کرنسی چھوٹی پڑ جاتی ہے اور تاجروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور دنیا کے تمام تاجر اور صنعتکار منافع حاصل کرنے کیلئے کاروبار کرتے ہیں، خسارے کیلئے نہیں۔
گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے ملکی برآمدات میں کمی کا نوٹس لیا اور وزیرِ تجارت نوید قمر کی زیرِ قیادت کمیٹی تشکیل دے کر برآمدات میں اضافے کیلئے 2 ہفتوں میں سفارشات طلب کیں، جو ایک احسن اقدام قرار دیا جاسکتا ہے۔
کیا اس سے یہ تاثر لیا جائے کہ وفاقی حکومت کو معلوم ہی نہیں کہ ملکی برآمدات کم کیوں ہورہی ہیں؟ دراصل برآمدات میں کمی کی کچھ وجوہات کا ذکر اوپر آچکا جن میں سے اہم یہ ہے کہ پاکستان کی کرنسی یعنی روپے کی قدر مسلسل کم ہورہی ہے اور زرِ مبادلہ ذخائر بے حد کم ہیں۔
ڈالر کے اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ میں فرق اتنا بڑھا ہوا ہے کہ بینک نوٹس دینے پر مجبور ہو گئے کہ ہم اوپن مارکیٹ ریٹ پر کام کریں گے، انٹر بینک ریٹ پر نہیں، جس سے برآمد کنندگان یقیناً خوش نہیں ہیں۔
رواں مالی سال کے دوران جولائی سے لے کر دسمبر تک ملکی برآمدات 5 اعشاریہ 79 فیصد کم ہوئیں، دسمبر میں سالانہ بنیادوں پر برآمدات 16 اعشاریہ 64 فیصد اور ماہانہ 3 اعشاریہ 64 فیصد کم ہوئیں جس سے تجارتی خسارہ بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتِ وقت ملکی برآمدات میں اضافے کیلئے تجاویز کو عملی شکل بھی دے اور تاجر برادری کو اعتماد میں لیا جائے تاکہ ملکی برآمدات میں کمی کی ایسی وجوہات کا بھی تدارک ہوسکے جو بڑے بڑے معاشی ماہرین کو نظر نہیں آتیں۔ ان کا احساس صرف انہی برآمد کنندگان کو ہوتا ہے جو آئے روز نت نئی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔