سن 1889ء میں پیدا ہونے والے خاموش مزاحیہ فلموں کے نامور اداکارچارلی چیپلن کا آج 131واں یومِ پیدائش ہے جبکہ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے اس فنکار نے اپنے عروج کے دور میں ایک طویل عرصے تک عوام کے دلوں پر قبضہ جمائے رکھا۔
مزاحیہ فلموں کے اداکار چارلی چیپلن نے بلیک اینڈ وائٹ فلموں کے دور میں اپنی اداکاری سے عوام الناس میں وہ شہرت حاصل کی جو اس دور میں چارلی چیپلن کے کسی ہم عصر فنکار کے مقدر میں نہ آئی۔
چارلی کی زندگی
مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن لندن میں 16 اپریل 1889ء میں پیدا ہوا تو اس کا نام چارلز اسپینسر چیپلن رکھا گیا جو لندن میں ہی پلا بڑھا۔ والدین کے اداکار ہونے کی وجہ سے چارلی بھی آگے چل کر اداکار بنا۔
اداکار چارلی چیپلن کا والد صداکار و اداکار جبکہ والدہ گلوکارہ و اداکارہ تھی۔چارلی کی عمر جب 3 سال سے بھی کم تھی، اس وقت ا س کے ماں باپ میں علیحدگی ہو گئی۔ چارلی نے گانا اپنے والدین سے سیکھا۔
والد کا شراب نوشی کے باعث اپنے بچوں سے رابطہ کم رہتا تھا جبکہ چارلی اور اس کے سوتیلے بھائی کی ذمہ داری چارلی کی والدہ نے سنبھالی ہوئی تھی۔ چارلی کے والد کا انتقال 1901ء میں ہوا۔
چارلی کی ماں للی ہارلے نے 1894ء میں ہی گانا چھوڑ دیا تھا جس کے باعث چیپلن خاندان مشکلات کا شکار ہوگیا۔ بعد ازاں للی ہارلے دماغی عارضے کے باعث پاگل خانے میں داخل ہو گئی۔
ایسے مشکل حالات میں چارلی چیپلن نے سوتیلے بھائی کے ساتھ آپس کے تعلق کو بڑھایا اور اسٹیج پر کام کرنا شروع کردیا۔
چارلی چیپلن کا کیرئیر
مزاحیہ اداکار چارلی چیپلن صرف ایک اداکار نہیں بلکہ مصنف، پروڈیوسر اور موسیقار بھی تھا جس نے اپنی فلم کی کہانیاں خود لکھیں، ان پر سرمایہ خود لگایا اور ان کی موسیقی بھی خود ترتیب دی۔
اس دور میں فلمی دنیا کی بااثر شخصیات میں چارلی چیپلن کا ایک نمایاں مقام تھا جس نے میکس لنڈر نامی ایک فنکار کی اداکاری کو بے حد سراہا جبکہ میکس لنڈر نے چارلی چیپلن کی اداکاری کو ایک حد تک متاثر کیا۔
تقریباً 75 سال تک اداکاری، ہدایت کاری اور موسیقی کی دنیا میں تخلیقی کام کرنے والے چارلی چیپلن نے برطانوی اسٹیج تھیٹر اور موسیقی ہالز سے کام شروع کیا جو اس نے مرتے دم تک جاری رکھا۔
چارلی چیپلن نے 1919ء میں ایک اسٹوڈیو قائم کیا جس کا نام یونائیٹڈ آرٹس رکھا گیا۔ اسٹوڈیو کے قیام میں اس کے ہم عصر ڈگلس فیئر بینکس، ڈی ڈبلیو گرفتھ اور میری پکفورڈ نے حصہ لیا۔
تعریف و توصیف
چارلی کی موت کے کافی عرصے بعد یعنی 1999ء میں امریکی فلم انستیٹیوٹ نے تمام ادوار کے بہترین اداکاروں کی فہرست مرتب کی جس میں چارلی چیپلن 10ویں مقام پر موجود تھا۔
مارٹن سیف نامی ایک مصنف نے چارلی چیپلن کے فنِ اداکاری پر ایک کتاب لکھی جس کا نام چارلی: اے لائف تھا جس میں مصنف نے چارلی چیپلن کو ایک دیوہیکل فنکار قرار دیا۔
جارج برنارڈ شا اور چارلی چیپلن
آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والا جارج برنارڈ شا ڈرامہ نگار، نقاد اور ناول نگار ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سیاستدان بھی تھا جس نے چارلی چیپلن کے ساتھ کام بھی کیا۔
ڈرامہ نویس و نقاد جارج برنارڈ شا کے مطابق چارلی چیپلن کا کام معیار کے اعتبار سے لاثانی اور بے مثال تھا جبکہ متعدد مواقع پر جارج برنارڈ نے چارلی چیپلن کو فلمی صنعت کا واحد جینئس قرار دیا۔
آخری فلم اور موت
چارلی چیپلن کی آخری فلم ”اے کاؤنٹیس فرام ہانگ کانگ“ تھی جو سن 1960ء کی دہائی میں بنائی گئی۔ فلم کی تکمیل کے بعد سن 1972ء میں چارلی چیپلن کو اکیڈمی ایوارڈ بھی دیا گیا، تاہم چارلی کی صحت 60ء کی دہائی کے اواخر میں ہی گرنا شروع ہو گئی تھی۔
اکیڈمی ایوارڈ ملنے کے بعد سے چارلی کی صحت مزید ڈانواں ڈول ہو گئی۔ وہ گفتگو، آمدورفت اور ابلاغ میں مشکل محسوس کرنے لگے۔ سن 1977ء میں چلنا پھرنا مکمل طور پر بند ہوگیا۔
چارلی چیپلن آخری ایام میں وہیل چیئر پر آ چکے تھے اور سن 1977ء کے آخری مہینے یعنی دسمبر میں نیند کے دوران ہی چارلی چیپلن کا انتقال ہوگیا۔
موت کے بعد
آج چارلی چیپلن کی موت کو تقریباً 43 سال ہوچکے ہیں، تاہم ان کی شہرت آج بھی برقرار ہے۔ آج رنگین فلموں کا دور آچکا ہے۔ لوگ خاموش اور بلیک اینڈ وائٹ فلمیں پسند نہیں کرتے، لیکن چارلی چیپلن کی فلمیں وقت گزاری اور تفریح کیلئے آج بھی دیکھی جاتی ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ قہقہے لگانے اور ہنسنے کے لیے تو چارلی چیپلن کی فلمیں ضرور دیکھی جاتی ہیں لیکن اس کی زندگی سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا جبکہ چارلی چیپلن کی زندگی مسلسل محنت، جدوجہد اور مشکلات سے عبارت ہے۔
ہمیں چارلی چیپلن جیسے مزاحیہ فنکار کی زندگی سے بھی یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی ہمیں کھیل، تفریح اور وقت گزاری کیلئے نہیں ملی بلکہ سنجیدہ جدوجہد اور کام کیلئے ملی ہے جس پر جتنی توجہ دی جائے، کم ہے۔