سانحہ 12 مئی کو 13 سال مکمل، مقتول افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کےمنتظر

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سانحہ 12 مئی کو 13 سال مکمل، مقتول افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کےمنتظر
سانحہ 12 مئی کو 13 سال مکمل، مقتول افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کےمنتظر

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

سانحہ 12 مئی شہرِ قائد میں رقم کی گئی خون کی ایک ایسی داستان کی یاد دلاتا ہے جس میں تقریباً 50 افراد قتل کردئیے گئے، 100 سے زائد زخمی ہوئے اور سرکاری و نجی املاک کو بڑے پیمانے پرنقصان پہنچایا گیا۔ 

سن 2007ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دورِ اقتدار کےدوران پیش آنے والا یہ واقعہ کیوں پیش آیا؟ اس کے محرکات کیا تھے؟ وہ کون لوگ تھے جنہیں اس واقعےکا ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے اور ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے حکومت کو کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ یہ وہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں جن کے جوابات جاننا آج کی اس  تحریر کا اہم مقصد ہے۔

سانحہ 12 مئی کیا ہے؟

آج سے ٹھیک 13 سال قبل 12 مئی کے روز پاکستان کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری حکومت کے خلاف صف آراء ہونے کیلئے کراچی چلے آئے جن کے استقبال کیلئے بہت سے سیاسی کارکنان اور عوام الناس سڑکوں پر آ گئے جبکہ ایم اے جناح روڈ پر ایم کیو ایم بھی جلسہ منعقد کرنے کا اعلان کرچکی تھی۔

جو لوگ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا استقبال کرنے آئے تھے، ان پر متعدد نامعلوم اور مسلح افراد نے اچانک گولیاں برسانا شروع کردیں۔ یہ کشیدگی اس وقت عروج کو جا پہنچی جب غیر فعال چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کیلئے کراچی پہنچے تھے۔

کراچی انتظامیہ جس پر اس وقت متحدہ قومی موومنٹ کا راج تھا، اس نے معزول چیف جسٹس کو کراچی ائیرپورٹ آمد کے بعد وہیں روک لیا اور باہر نکل کر سندھ ہائی کورٹ بار آنے کی اجازت نہیں دی جبکہ وکلاء تحریک عروج پر تھی اور وکیلوں کی ایک بڑی تعداد سابق چیف جسٹس کا ساتھ دے رہی تھی۔

جب نامعلوم مسلح افراد نے وکلاء سمیت سینکڑوں لوگوں پر گولیاں برسائیں تو ان کے پاس اپنے دفاع کیلئے کوئی چیز نہیں تھی کیونکہ وہ چیف جسٹس کا استقبال کرنے آئے تھے۔ کشیدگی کے باعث 50 سے زائد افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ زخمیوں کی تعداد 100 سے تجاوز کر گئی۔

قتل و غارت کا ذمہ دار کون؟

سانحہ 12مئی اپنی نوعیت کا ایک انتہائی حساس معاملہ ہے جس کے حقیقی ذمہ داران پر انگلی اٹھانا ایک بے حد مشکل کام سہی، تاہم اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے، ہم یہ مشکل کام سرانجام دینے کی اپنی سی کوشش ضرور کریں گے تاکہ واقعے کے حقائق سے پردہ ہٹایاجاسکے۔

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ملک پر اس وقت سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت تھی جو وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے خلاف ریفرنس لائے جس کے بعد انہیں معزول کردیا گیا۔ معزول چیف جسٹس اس واقعے کے بعد ہی کراچی پہنچے تھے۔

اس لیے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وفاقی حکومت اور کراچی کے اقتدار پر قابض متحدہ قومی موومنٹ کی شہری انتظامیہ اس واقعے کی ذمہ داری قبول کریں تو زیادہ مناسب محسوس ہوگا کیونکہ انہی کے دورِ اقتدار میں یہ واقعہ پیش آیا جب موجودہ میئر کراچی وسیم اختر وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم کے مشیرِ داخلہ تھے۔

سن 2018ء میں کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 12 مئی کے ایک مقدمے میں متحدہ قومی موومنٹ کے میئر کراچی وسیم اختر سمیت دیگر ملزمان پر فردِ جرم عائد کی جبکہ 12 مئی کے واقعے کا الزام ایم کیو ایم کے سابق کنوینر فاروق ستار پر بھی عائد کیاجاتا ہے۔

مجموعی طورپر سانحہ 12 مئی کے حوالے سے عدالتوں میں 7 مقدمات زیر سماعت ہیں جن پر قانونی کارروائی انتہائی سست روی سے جاری ہے جس کا کوئی واضح نتیجہ نکلتا نظر نہیں آتا۔ 

جرم کا اعتراف

ایم کیو ایم کے رکنِ سندھ اسمبلی کامران فاروق جنہیں رینجرز نے گرینیڈ اور غیر قانونی اسلحہ رکھنے کے الزام میں گرفتار کیا، ان پر الزام تھا کہ وہ 12 مئی کے واقعے میں ملوث سینکڑوں مفرور افراد میں شامل ہیں۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے متحدہ قومی موومنٹ کے رکنِ اسمبلی نے اعترافی بیان ریکارڈ کروایا جس میں انہوں نے بتایا کہ ایم کیو ایم نے 12مئی کے واقعے سے 2 روز اقبل قبل ایک اجلاس منعقد کیا جہاں اہم فیصلے ہوئے۔

پارٹی کے صدر دفتر نائن زیرو میں ڈاکٹر فاروق ستار، حماد صدیقی اور دیگر سیاسی رہنما موجود تھے جبکہ پارٹی کا مدعا یہ تھا کہ وکلاء کسی صورت کراچی ائیرپورٹ نہ پہنچیں۔

رکنِ اسمبلی کامران فاروق نے اقبالی بیان میں اعتراف کیا کہ میں نے اور میرے مسلح ساتھیوں نے 12 مئی کو شہر کی متعدد شاہراہیں بلاک کردیں اور فائرنگ کی جس سے کئی افراد زخمی ہو گئے۔

سانحہ 12 مئی کے ذمہ دار 16 افراد کی گرفتاری کیلئے جنوری 2018ء کو اخبار میں اشتہار بھی دیا گیا۔ ملزمان سے کہا گیا کہ 3 فروری تک عدالت میں پیش ہوں، بصورتِ دیگر انہیں مفرور سمجھا جائے گا۔

کراچی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے عمیر حسین صدیقی، عبدالاحد، حق نواز، عبدالوحید اور دلدار میاں سمیت 16 افراد کو مفرور قرار دیا جن پر ہنگامہ آرائی اور قتل کے ساتھ ساتھ جلاؤ گھیراؤ کے الزامات عائد ہیں۔

صحتِ جرم سے انکار 

آج سے 2 سال قبل کراچی کی انسدادِ دہشت گردی میں 12 مئی کے ایک اور مقدمے میں میئر کراچی وسیم اختر سمیت 21 ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

عدالت نے  مقدمے کی سماعت کے دوران میئر کراچی سمیت دیگر ملزمان پر فردِ جرم عائد کی۔ ملزمان کو ان کا جرم پڑھ کر سنایا گیا جس پر انہوں نے صحتِ جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس جرم میں ملوث نہیں۔

لاپتہ اور ضمانت پر رِہا ملزمان

میئر کراچی وسیم اختر سمیت مقدمے کے چند ملزمان نے عدالت سے ضمانت حاصل کررکھی ہے جبکہ 16 مفرور ملزمان آج تک مفرور ہیں اور انہوں نے عدالت سے رجوع کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔

سندھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس افضل سومرو کی سربراہی میں فل بینچ نے از خود نوٹس کیس کی سماعت کی اور سانحہ 12 مئی کیس کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر کیس ہی بند کردیا۔

مقدمات میں نامزد کچھ ملزمان کی گرفتاری 2017ء میں عمل میں آئی جبکہ 19 ملزمان ضمانت پر رہا ہو گئے کیونکہ ان کے خلاف شواہد اور کیس دونوں کمزور پائے گئے۔ وااقعے کے 11 سال بعد میئر کراچی پر فردِ جرم عائد ہوئی۔ 

ملک کےقانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتی نظام اتنا کمزور ہے کہ 12 مئی کے واقعہ جس کی فوٹیج نیوز چینلز تک پر موجود ہے، اس میں ملوث ملزمان کو آج تک سزا نہیں دے سکا۔ 

انصاف کیلئے احتساب کی ضرورت 

سب سے پہلے ہمیں اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ نظام درست نہیں ہوگا۔ قتل و غارت اور دہشت گردی سمیت کسی بھی واقعے کے ذمہ داران کو سزا نہیں ملے گی اور انصاف کے منتظر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

دوسری جانب نظامِ جمہوریت اور حکومتی مشینری کو انصاف کے راستے میں حائل ہونے کی بجائے ہر مجرم کو انصاف کے کٹہرے میں لانے پر توجہ دینا ہوگی جبکہ ذاتی مفادات، سیاسی مصلحت اور دیگر اسباب کے باعث زیادہ تر سیاسی رہنماؤں پر جرائم کی سرپرستی کا الزام عائد کیاجاتا ہے۔

سیاسی اکابرین، بیوروکریسی اور اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران جرائم کی سرپرستی اس وقت تک نہیں چھوڑیں گے جب تک احتساب کا نظام مضبوط نہ کیا جائے۔ اس لیے سیاسی رہنماؤں سمیت جرائم کی سرپرستی کرنے والے تمام عناصر کی بیخ کنی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ 

 

Related Posts