اسلام آباد: پاکستان کے پہلے منتخب وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا 94واں یومِ پیدائش آج منایا جارہا ہے جو اپنے منفرد انداز، سیاسی تدبر اور فکر انگیز گفتگو کے باعث ملکی تاریخ میں اہم مقام کے حامل اور پہلے شہیدِ جمہوریت کہلاتے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں لگایا گیا ایک ایسا پودا ہے جو آگے چل کر تناور درخت کی صورت اختیار کر گئی اور ملک کی قومی سیاست میں ہر لحاظ سے متحرک اور اہم سیاسی جماعت کے روپ میں نظر آنے لگی۔
خواجہ آصف کے خلاف کیس میں حقِ جرح ختم ہونے پر وزیراعظم سے جواب طلب
آج سے 94 برس قبل لاڑکانہ میں سر شاہنواز بھٹو کے ہاں ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کے روز پیدا ہوئے۔ انہوں نے برکلے یونیورسٹی سے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی اور مسلم لاء کالج میں درس و تدریس کے فرائض بھی سرانجام دئیے۔
سندھ ہائیکورٹ میں ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ عرصے تک وکالت بھی کی۔ بعد ازاں ملکی سیاست میں ایک اہم رہنما کے طور پر منظرِ عام پر آئے۔ سکندر مرزا کے دور میں ذوالفقار علی بھٹو وفاقی کابینہ کا حصہ بنے اور ملکی معاملات کو سمجھا۔
صدر ایوب خان کی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو اہم عہدوں پر فائز رہے جن میں وفاقی وزیرِ تجارت، وزیرِ اطلاعات و نشریات اور وزیرِ خارجہ جیسا اہم اور مؤقر ترین عہدہ شامل ہے جس سے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ کا پتہ چلتا ہے۔
بعد ازاں سن 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی تشکیل دی اور سن 70ء کے انتخابات میں موجودہ پاکستان جسے مغربی پاکستان کہا جاتا تھا، یہاں پیپلز پارٹی ایک اکثریتی جماعت بن کر ابھری اور ملک کے سیاسی افق پر چھا گئی۔
سن 70 کی دہائی کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔1971ء میں یحییٰ خان نے سانحہ مشرقی پاکستان کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کو صدرِ مملکت بنا دیا اور سن 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک نیا متفقہ آئین دیا جو آج تک ترامیم کے ساتھ نافذ ہے۔
آگے چل کر ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیرِ اعظم بنے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس کے انعقاد کو ممکن بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوگیا۔ پھر ذوالفقار بھٹو نے ایٹمی پروگرام شروع کیا۔
سابق آرمی چیف ضیاء الحق نے سن 1977ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سامنے آنے کے بعد امن و امان کی خراب صورتحال پر قابو پانے کیلئے ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا تھا۔اور ستمبر میں منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو گرفتار ہو گئے۔
اگلے ہی برس سندھ ہائی کورٹ نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا سنا دی۔سپریم کورٹ نے فیصلے کے خلاف اپیل کو مستردکردیا۔ راولپنڈی جیل میں 4 اپریل 1978 کے روز قائدِ عوام ذوالفقار علی بھٹوکو پھانسی دے دی گئی، جو ملکی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔