مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جو انسان کا ساتھ قبر تک دیتی ہیں۔ میری ہمیشہ سے ایک عادت رہی ہے کہ میں صبح جلدی بیدار ہوجاتا ہوں۔

کوئی چھٹی ہو ،تہوار ہویا دفتر جانا ہو،میں ہمیشہ جلدی اٹھنے کا عادی ہوں اور یہی وجہ ہے کہ چھٹی کے روز جب سب اہل خانہ نیند کی وادیوں میں گم ہوتے ہیں تو میں اکیلا گھر میں گھوم رہا ہوتا ہوں۔

گزشتہ اتوار کو بھی میں صبح کے وقت اٹھ کر ڈرائنگ روم کی کھڑی سے آنیوالی صبح کی روشنی کا مزہ لے رہا تھا تو میرے ذہن میں یہی خیال تھاکہ 2022 پاکستان کیلئے کیسا ثابت ہوگا۔ معاشیات کا طالب علم ہونے کے ناطےجب بھی کسی چیز کی بات آتی ہے تو سب سے پہلے ہمارے ذہنوں میں اس کا معاشی مستقبل ہی آتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ سوچ کا دھارا پاکستان کے معاشی مستقبل کی طرف نکل گیا۔

سوچ رہا تھا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی تھم پائے گی ؟، جب میری سوچ کا رخ بین الاقوامی تیل کی بڑھتی قیمتوں  اوربحری جہازوں کے بڑھتے کرایوں کی طرف گیا تو میں کچھ گڑبڑا گیا کیونکہ بیرونی عوامل پاکستان کی معیشت کے حق میں نظر نہیں آئے۔

پھر سوچا کہ اندرونی پالیسیاں (جوکہ اگر مضبوط اور بہتر ہوں تو بیرونی عوامل کا مقابلہ کرسکتی ہیں) شائد بڑھتی ہوئی قیمتوں کے طوفان کو روک پائیں۔جب میرے ذہن میں یہ آیا کہ پاکستان میں شرح سود بڑھانے سے افراط زر بڑھتا ہے اور ویسے بھی پاکستان میں مالیاتی پالیسی افراط زر کو روکنے کیلئے کارگر ثابت نہیں ہوتی تو دل تھم سا گیا۔

سوچا زری پالیسی کے ہی کچھ ثمرات مل جائیں گے لیکن جب زری پالیسی کا جائزہ لیا تو ذہن میں 350 ارب روپے کی ختم کی گئی سبسڈی اور 4 روپے کے حساب سے پیٹرولیم لیوی اور مختلف اشیاء پر بڑھتے ہوئے ٹیکسز (جس میں شمسی توانائی کے حصول کے آلات بھی شامل ہیں) جو کہ موجودہ منی بجٹ کی وساطت سے سامنے آئے تو دل نے کہا کہ مہنگائی کا ٹھہرنا تودرکنار اگر اس کی رفتار کچھ کم کرلی جائے تو بھی غنیمت ہوگا۔

بحرحال سوچا ملکی برآمدات ہی شائدملکی معیشت کو کچھ سنبھالا دے پائیں ،اگر افراط زر کم نہیں ہوتا تو زیادہ پیداوار کی صورت میں اپنے ذرائع آمدن کو درست کیا جاسکتا ہے لیکن پتہ چلا کہ 40 ارب کا نعرہ مارنے والی موجودہ حکومت سوائے ٹیکسٹائل سیکٹر کے کسی شعبہ کو درخورِاعتنا ہی نہیں سمجھتی۔

شائد یہی وجہ ہے کہ آئی ٹی سیکٹر جس کو نہایت آسانی سے 4 ارب ڈالر تک لیجایا جاسکتا ہے (ہمارے ہمسایہ ملک کی آئی ٹی ایکسپورٹ 50 ارب روپے ہے) لیکن اس پر کوئی توجہ نہیں جبکہ ایسا ہی حال ہماری میرین لائف کی برآمدات کا ہے جس کا پوٹینشل تقریباً 3 ارب ڈالر ہے لیکن سونے پر سہاگہ یہ کہ بڑھتی ہوئی کاروباری لاگت پاکستان کی برآمدات میں عدم مسابقت پیدا کررہی ہے۔

جب یہ حالات ذہن میں آئے تو برآمدات کے ذریعے معیشت کو بہتر کرنے کا حل فوری مستردکرنا پڑا۔ سوچا کہ حکومت مافیاز کے خلاف کارروائی کریگی۔ چینی، آٹا، سیمنٹ اور اسٹیل کے کارٹلز (جتھے) کیخلاف کارروائی کرکے اور مسابقتی کمیشن کو فعال بناکر شائد قیمتوں پر قابو پائے گی لیکن پتا چلا کہ کارٹلز گزشتہ چند سالوں میں اتنے مضبوط ہوچکے ہیں کہ ان کے خلاف آواز اٹھانے والا خود ہی غائب ہوجاتا ہے۔

پھر سوچا کہ شائدافغانستان اسمگل ہونے والے لائیو اسٹاک ، یوریا اور دیگر اشیاء کی اسمگلنگ روک کر ملک میں موجود ہ قلت کو دور کرکے قیمتوں میں اضافے کے سیلاب کو روک جاسکے لیکن ان تمام کاموں کے سرغناؤں کو جب اقتدار کے اعلیٰ عہدوں پر فائز دیکھا تو خوابِ غفلت سے میری آنکھ کھل گئی۔

ایک بار پھر ذہن کے گھوڑے دوڑائے تو سوچا کہ شائد ڈاکٹر عشرت کی زیر صدارت 3 سال تک کام کرنے والی سرکاری اصلاحات کمیٹی کی سفارشات معیشت کا دھارا بدل دیں یا اسد عمر کی معیشت کا فلسفہ معاشی اتار چڑھاؤ کو روک سکے لیکن جواب ندارد۔

ان تمام عوامل پر غور و خوض کے بعد ایک خوف نے آن لیا کہ شائد ناکام مالیاتی پالیسی، زری پالیسی، فرسودہ اصلاحات کا نظام بتدریج مضبوط ہوتے معاشی دھڑے،بڑھتی ہوئی اسمگلنگ، سخت بیرونی عوامل، تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور گرتا ہوا روپیہ، 2022 کہیں غربت کی بجائے غریب ختم کرنے کا سال ثابت نہ ہوجائے۔

خدا کرے کہ میرے خدشات،خیالات، تجزیئے اور اندیشے غلط ثابت ہوں لیکن میں کوئی بہت زیادہ پرامید نہیں ہوں ۔ایسا لگتا ہے کہ 2022 بھی 2021 کی طرح ہماری مشکلات کا مداوا نہیں کرپائے گا۔

شائد پاکستان کے عوام کا مقدر ہے کہ ہمیں سیر سے بڑھ کر سواسیر ملتا ہے ۔ میں اب انتظار کررہا ہوں کہ تبدیلی کے بعد اب کونسا نیا چورن مارکیٹ میں آنے والا ہے۔

Related Posts