ہر سال 8 مارچ کے روز عالمی یومِ خواتین منایا جاتا ہے جس کا مقصد خواتین کی معاشرتی، ثقافتی، معاشی اور سیاسی کامیابیوں کا جشن منانا ہے اور انہیں معاشرے میں مستقل طور پر درپیش مشکلات اور پیشہ ورانہ زندگی کے مسائل کو اجاگر کرنا ہے۔ یہ دن صنفی مساوات اور خواتین کو بنیادی حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ بھی کرتا ہے۔
خواتین کے حقوق کی تحریک تقریباً 100 برس پرانی ہے لیکن 1960ء کی دہائی کے دوران تحریک میں تیزی آئی کیونکہ خواتین مساویانہ حقوق، مواقع اور زیادہ سے زیادہ شخصی آزادی کا مطالبہ زور و شور سے پیش کرنے لگیں۔ اس کا آغاز 1920ء کی دہائی میں ہوا جب حقِ رائے دہی کی تحریک چلائی گئی اور خواتین نے انتخابات میں ووٹ کے حق کیلئے احتجاج کیا اور صنفی امتیاز اور مساوی کام کیلئے مساوی تنخواہ کا مطالبہ بھی پیش کیا۔ اس کے بعد خواتین کے حقوق کی جدوجہد یقینی طور پر ایک طویل فاصلہ طے کرچکی، تاہم حقوقِ نسواں کی علمبردار گلوریا اسٹینم کے قول کے مطابق حقوقِ نسواں کی تحریک میں معاملات صرف آگے بڑھ رہے ہیں۔
حقوقِ نسواں کی تحریک میں یومِ خواتین کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جانا سب سے بڑی کامیابی سمجھی جاتی ہے جس میں اہم مباحثے اور واقعات کے متعلق آگہی بھی ملتی ہے۔ تاہم بدقسمتی سے معاشرے میں تبدیلی بہت کم آئی کیونکہ آج بھی خواتین کو اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے، خاص طور پر قدامت پسند معاشروں میں رہنے والی خواتین کیلئے مشکلات بے حد زیادہ ہیں۔ معاشرتی رویوں اور بد انتظامی کے تدارک کیلئے شعور کی بیداری کے ساتھ ساتھ اور بھی بہت کچھ چاہئے تاکہ خواتین کو ان کے حقوق حاصل ہوسکیں۔
وطنِ عزیز پاکستان میں خواتین نے اپنے حقوق کے مطالبے اور عوامی مقامات پر مظاہروں کیلئے ہر سال عورت مارچ کا انعقاد جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ا پروگرام کو کچھ بینرز تلے غیر ضروری تنازعات سے بھی دوچار کیا گیا جس سے مغرور مردوں کے جذبات کو تسکین حاصل ہوئی تاہم اس سے حقوقِ نسواں کی تحریک کو نقصان پہنچا اور معاشرے کی توجہ صرف خواتین کی آزادی پر منتقل ہوگئی جسے مادر پدر آزاد لبرل ازم سے منسلک کیا جاتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ تاحال خواتین کے حقوق میں سے اہم حق اپنے جسم پر ذاتی آزادی کا مطالبہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب میں بھی خواتین کے حقوق کی تحریک تاحال جاری ہے اور بہت سے معاملات میں خواتین استحصال کا شکار ہیں۔ می ٹو اور ٹائمز اَپ جیسی عالمی تحریکوں نے میڈیا اور کام کی جگہوں میں خواتین کا استحصال کرنے والے مردوں کی حوصلہ شکنی کی تاہم حقوقِ نسواں کی تحریک کو ابھی بہت طویل فاصلہ طے کرنا ہے۔ یہ ضروری ہے کہ خواتین اور مرد بھی اپنے فیصلوں میں آزادی اور خودمختاری کا حق حاصل کرنے اور دینے کی حمایت کریں۔ یہ طویل مدتی پروگرام نہیں بلکہ ایسی حقیقت ہونی چاہئے جو ہماری ذہنیت اور طرزِ عمل میں تبدیلی لائے۔ یومِ خواتین پر ہمیں مختلف بینرز، ہیش ٹیگز اور رجحانات سے بالاتر ہو کر خواتین کے ساتھ روا رکھے جانے والے صنفی تعصب اور جانبداری کو روکنا ہوگا۔