قومی کرکٹ ٹیم کے چیف سلیکٹر محمد وسیم نے کپتان بابراعظم اور ہیڈ کوچ مصباح الحق سے مشاورت کے بعد صہیب مقصود کو حیدر علی کے متبادل کی حیثیت سے اسکواڈ میں شامل کرلیا ہے،صہیب مقصوداب دورہ انگلینڈ اور ویسٹ انڈیز میں حیدر علی کی جگہ قومی اسکواڈ کا حصہ ہوں گے۔پاکستانی اسکواڈ نے کل دورہ انگلینڈ کے لیے روانہ ہونا ہے، صہیب مقصود خوش قسمت ہیں کہ وہ روانگی سے 24 گھنٹے قبل قومی اسکواڈ کا حصہ بن گئے ہیں۔
صہیب مقصود کو پاکستان سپر لیگ 6 کی فائنلسٹ پشاور زلمی کے حیدر علی کی جانب سے کورونا پروٹوکولز کی خلاف ورزی کرنے پر قومی کرکٹ ٹیم میں شامل کیا گیا ہے، حیدر علی کے مسلسل ناکام ہونے کی وجہ سے قومی سلیکشن کمیٹی پر تنقید ہو رہی تھی اور ان فارم بیٹسمین صہیب مقصود کو ٹیم میں شامل کیے جانے کی با تیں ہو رہی تھیں تاہم حیدر علی کی غلطی کی وجہ سے صہیب مقصود کی قومی ٹیم میں شمولیت پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ صہیب مقصود کی قومی ٹیم میں شمولیت اپنی کارکردگی کے بجائے دوسروں کی ناکامی سے مشروط کیوںہے۔
صہیب مقصوداس سے پہلے بھی قومی کرکٹ ٹیم کی نمائندگی کرچکے ہیں اور 26 ایک روزہ اور 20 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں جبکہ آخری مرتبہ 2016 میں پاکستان کی نمائندگی کے بعد 5 سال تک انہیں قومی ٹیم میں شمولیت کا موقع نہیں ملا۔پاکستان سپرلیگ سیزن 6 میں دوسری فائنلسٹ ملتان سلطان کی نمائندگی کرتے ہوئے صہیب مقصود پاکستان سپر لیگ 6 کے 11 میچز میں اب تک 363 رنز بنا چکے ہیں، اس دوران ان کے رنز بنانے کی اوسط 40اعشاریہ 33 اور اسٹرائیک ریٹ 153کے قریب رہا۔
دوسری جانب اگر حیدر علی نے اب تک لسٹ کے 13 میچوں میں 45 اعشاریہ 69 کی اوسط سے 594 رنز بنائے ہیں، فرسٹ کلاس میں 8 میچوں میں 46اعشاریہ 57 کی اوسط سے 652، ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میں 14 میچ کھیل کر 20 اعشاریہ 91 کی اوسط سے سے 251 جبکہ 2ایک روزہ انٹرنیشنل میچوں میں حیدر علی 21 کی اوسط سے 42 رنز بناچکے ہیں۔
صہیب مقصود کے کیریئر پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے 26 ایک روزہ اور 20 ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچز میں قومی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک روزہ میچوں میں 735 جبکہ ٹی ٹوئنٹی میں 221 رنز بنائے ہیں جبکہ حالیہ پی ایس ایل میں انہوں نے ملتان سلطان کی طرف سے مسلسل رنز کرکے اپنی ٹیم کو فائنل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر صہیب مقصود عددی اعتبار سے حیدر علی سے آگے تھے تو انہیں پہلے نظر انداز کیوں کیا گیا اور اگر پہلے اہل نہیں تھے تو اب کیوں شامل کیا گیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ میں پسند ناپسند ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ پی سی بی ماضی میں پسند ناپسند کی وجہ سے کئی کھلاڑیوں کا ضائع کرچکا ہے اور اب بھی یہی روش برقرار رہے۔
پاکستان کو دنیا میں سب سے زیادہ ناقابل یقین ٹیم سمجھا جاتا ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کبھی بھی کہیں بھی ہار ہوا میچ جیتنے اور جیتا ہوا میچ مخالف کی جھولی میں ڈالنے کیلئے مشہور ہے اسی لیئے کبھی بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے کوئی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی تاہم باصلاحیت کھلاڑیوں کے ساتھ بورڈ کا رویہ بھی ناقابل فہم ہے۔کبھی تو ایسے کھلاڑیوں کو شامل کرلیا جاتا ہے جن کی دومیسٹک میں کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں ہوتی اور کبھی اسکواڈ میں حصہ نہ بنانے والوں کو گھر سے بلاکر قیادت سونپ دی جاتی ہے تو کبھی تینوں فارمیٹس کے کپتان کو یک جنبش قلم گھر بھیج دیا جاتا ہے۔
آج کے دور کے تقاضوں کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کو بھی اپنی روش کو تبدیل کرکےذاتی پسند ناپسند کے بجائے ملک و قوم کے وقار کو مدنظر رکھنا چاہیے اور باصلاحیت کھلاڑیوں کو بروقت موقع دینا چاہیے تاکہ نوجوانوں میں مزید شوق و جذبہ پیدا ہوا اور اس سے ٹیم میں گروپ بندی جیسے سے مسائل سے بھی بچا جاسکتا ہے۔