اسمبلیاں تحلیل ہوں گی یا نہیں؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کسی بھی ملک کا سیاسی نظام تہہ در تہہ اختیارات، مناصب اور ادارہ جات کی تقسیم پر مشتمل قرار دیا جاسکتا ہے جس میں بعض عناصر بے حد اہم، بعض بہت اہم اور بہت سے کم اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔

سیاسی نظام میں اسمبلی اور سینیٹ کی اہمیت قانون سازی کے اعتبار سے انتہائی اہم سمجھی جاتی ہے جہاں ملک کی تقدیر کے بڑے بڑے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قانون سازی کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانے قوانین فرسودہ ہوسکتے ہیں۔

مثال کے طور پر پاکستان میں اس وقت جو قانون رائج ہے اسے 1973 کا آئین کہا جاتا ہے لیکن یہ قانون بے شمار ترامیم کے بعد آج اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی حفاظت کرسکے تاہم اس میں بے شمار سقم تاحال موجود ہیں۔

تمام تر تمہید کے بعد اس نکتے کی طرف آتے ہیں جو آج تمام رہنماؤں کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے کہ عمران خان اسمبلیاں تحلیل کریں گے یا نہیں۔ آج سے 2 روز قبل عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ 23 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی۔

یہ اعلان کرنے کے ساتھ ساتھ سابق وزیر اعظم عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ہم 123 اراکین کو استعفوں کی تصدیق کیلئے قومی اسمبلی بھیجیں گے۔ یہ تمام تر باتیں عمران خان نے اپنی رہائش گاہ زمان پارک سے ویڈیو لنک پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

عمران خان شاید ملک کے وہ پہلے وزیر اعظم ہوں گے جنہیں ماضی میں یہ کہہ کر بتانا پڑا کہ آرمی چیف میرے نیچے ہے کیونکہ میں وزیر اعظم ہوں اور بے شک انہوں نے یہ بات ملکی آئین کے مطابق کی کیونکہ ملکی آئین ہی اداروں کو مقننہ کے ماتحت بناتا ہے۔

آئین کے تحت اختیارات کی تقسیم در تقسیم کا یہ معاملہ اتنا الجھا ہوا ہے کہ بعض معاملات میں صدرِ مملکت، بعض میں وزیر اعظم، بعض میں آرمی چیف تو بعض میں چیف جسٹس آف پاکستان کو ایسے اہم اختیارات حاصل ہیں جو انہیں دیگر سربراہان سے ممتاز کرتے ہیں۔

ملکی سیاست کا جائزہ لیجئے تو اختیارات کی یہ پیچیدہ تقسیم آمریت کیلئے کتنی کارگر ثابت ہوئی کہ ملک پر سالہا سال تک فوجی حکمرانوں نے مارشل لاء نافذ کیا، آئین معطل کیا اور من مرضی کے متعدد فیصلے کیے۔

آج عمران خان صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کی بات کرکے وفاقی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنا چاہتے ہیں کیونکہ دلچسپ طور پر موجودہ پی ڈی ایم حکومت بھی اتنی ہی کمزور ہے جتنی کہ عمران خان کی اپنی حکومت تھی۔

پی ٹی آئی کے لوگوں نے ملک بھر میں مٹھائیاں تقسیم کیں اور بھنگڑے ڈالے جب عمران خان 2018 میں وزیر اعظم بنے تھے لیکن اس وقت کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اتحادیوں کی بیساکھیوں پر کھڑی یہ حکومت 5سال تو کیا ،4سال بھی پورے نہیں کر پائے گی۔

وہی مسئلہ آج پی ڈی ایم حکومت کو درپیش ہے، تو سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان صرف دھمکی دے رہے ہیں یا اسمبلیاں تحلیل بھی کرسکتے ہیں تو آئین یہ کہتا ہے کہ اسمبلی میں آئینی اکثریت رکھنے والی اور حکمراں سیاسی جماعت ایسا کرسکتی ہے۔

تاہم عمران خان کی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے شاید عام انتخابات کی منزل تک رسائی نہ ہوسکے جس سے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سیاسی رہنما ملک کے سیاسی و معاشی مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر بیٹھیں۔

 

Related Posts