گرفتاری کیوں؟ پشتون تحفظ موومنٹ کے مقاصد کیا ہیں؟ منظور پشتین کون ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Who is Manzoor Pashteen

پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماء منظور پشتین کو پولیس نے کوہاٹ میں گرفتار کرلیا ہے،منظور پشتین کو پولیس نے کوہاٹ میں اس وقت گرفتار کرلیا ہے جب وہ بنوں میں دھرنے میں شرکت کے لئے جارہے تھے۔منظور پشتین کو اس سے پہلے بھی کئی بار گرفتار کیا جاچکا ہے جبکہ اشتعال انگیز تقاریر کے حوالے سے ان پر کئی شہروں میں کیسز زیر سماعت ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور احمد پشتین کا تعلق پاکستان کے علاقے جنوبی وزیرستان ایجنسی سے ہے،منظور پشتین جنوبی وزیرستان میں سرواکی کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاؤں، مولے خان سرائی میں 1994ء میں پیدا ہوئے۔

منظور احمدپیشے کے لحاظ سے جانوروں کے ڈاکٹر ہیں،انہوں نے گومل یونیورسٹی ڈیرہ اسماعیل خان سے ڈی وی ایم کیا،منظوراحمد خود کو پشتین کہتے ہیں جو پشتون ہی کا ایک تلفظ ہے۔ یعنی پشتو بولنے والا۔ڈاکٹر منظور احمد تحریک تحفظ پشتون کے بانی ہیں جس کا آغاز محسود تحفظ موومنٹ سے ہوا لیکن پھر یہ تحریک پشتون تحفظ موومنٹ میں تبدیل ہو گئی۔

2014ء میں منظور پشتین نے محسود تحفظ موومنٹ کی بنیاد رکھی جبکہ 26 جنوری، 2018ء کوڈیرہ اسماعیل خان سے شروع ہونے والی احتجاج مارچ کی قیادت کی ۔جنوری 2018 ء میں نقیب اللہ محسود کی کراچی میں پولیس مقابلے کے دوران ماورائےعدالت ہلاکت کے بعد اس تحریک کو عروج ملا۔ اس کی مقبولیت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے اس کا نام “محسود تحفظ تحریک” سے تبدیل کر کے “پشتون تحفظ تحریک” رکھا گیا۔

قبائلی علاقوں سے بارودی سرنگیں ہٹائی جائیں،ناکوں اور تلاشی کیلئے بنی چوکیوں پر ناروا سلوک کا خاتمہ کیا جائے،نقیب اللہ محسود سمیت جعلی مقابلوں میں مارے جانے والوں کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے،اور تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے گھروں تک پہنچایا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے یہ پشتون تحفظ موومنٹ کے اہم مطالبات ہیں۔

پاکستان کی مجموعی آبادی کابڑا حصہ پشتون افراد پر مشتمل ہے،سکندر اعظم کے وقت سے پشتونوں کو ان کی جنگی صلاحیتوں کے باعث سراہا جاتا ہے اور بہت سے ادوار میں عسکریت پسندوں اور افواج نے انہیں اپنی جنگوں میں استعمال بھی کیا۔

افغان اور پاکستانی طالبان دونوں میں اکثریت پشتون افراد کی ہی ہے۔ اور یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ ایک عام پشتون شہری کو بھی ایک قدامت پسند قبائلی یا دہشت گردوں کا ہمدرد سمجھا جاتا ہے۔ انہیں مبینہ طور پر شہروں میں ہراساں کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کے لیے شہری علاقوں میں کرائے پر گھر ڈھونڈنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

پاکستان کے بڑے شہروں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے جلسے ہو چکے ہیں جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان، بلاول بھٹوزرداری، ملالہ یوسف زئی، افغان صدراشرف غنی،سابق افغان صدر حامد کرزئی اور محمود اچکزئی پشتون تحفظ موومنٹ کے مطالبات کی حمایت کر چکے ہیں۔

منظور پشتین کا ماننا ہے کہ ان کی تحریک کوئی نیا رجحان نہیں ہے،یہ تحریک بہت پہلے سے اٹھی تھی بس شکلیں تبدیل ہوتی رہیں۔ 2003 میں جب اس علاقے میں کارروائی شروع ہوئی اور عام آدمی متاثر ہوا ہے تو ان کے نمائندے کہتے رہے کہ ظلم نہ ہو، یہاں امن ہو تو انھیں مار دیا گیا۔

2010 تک جو بولنے کی جرات کرتا وہ ختم کر دیا جاتا تھا۔ جو امن کی بات کرتا، وہ نامعلوم افراد کے ہاتھوں مار دیا جاتا تھا۔ اسی لیے ہمیں کہا جاتا ہے کہ ایسی باتیں آپ کو صرف موت دے سکتی ہیں اور کچھ نہیں۔آج یہ تحریک عالمی سطح پر توجہ حاصل کرچکی ہے ۔

Related Posts