کس سے منصفی چاہیں 

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اپنا گھر ہر انسان کا خواب ہوتا ہے، انسان پائی پائی جوڑ کر اور اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیاں مار کر پیسہ جمع کرتا ہے اور برسوں کی تکلیفیں اٹھانے کے بعد اپنی چھت کا خواب پورا ہوتا ہے۔کراچی جیسے دنیا کے میگا سٹی میں اپنا گھر ایک خواب کی مانند ہے۔

اور اس خواب کو پورا کرنے کیلئے لوگوں کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے لیکن اپنی چھت کا حصول ممکن نہیں ہوتا اور اگر کوئی شخص عروس البلاد کراچی میں اپنے گھر کا مالک بن جاتا ہے تو اس کیلئے یہ خوشی کسی خزانہ سے کم نہیں ہوتی ۔

کراچی میں تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے زمینوں کی قیمتیں آسمان پر پہنچ چکی ہیں اور لوگوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے کیلئے کراچی کے پوش علاقوں سے لے کر کچی آبادیوں اور گوٹھوں تک مافیا نے لوٹ مار کا ایل لامتناہی سلسلہ شروع کررکھا ہے اور آج کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں غیر قانونی قبضے اور ناجائز تعمیرات کا مسئلہ نہ ہو۔

کراچی شہر میں جہاں بھی چلے جائیں وہاں آج زمین پر گھر کے بجائے پورشن کا کلچر عام ہورہا ہے کیونکہ پورشن زمین کی نسبت کسی حد تک سستے قرار دیئے جاتے ہیں تاہم شہر کے بعض علاقوں میں پورشن اور فلیٹ بھی کروڑوں روپے تک پہنچ چکے ہیں۔

کیونکہ حکومت کی طرف سے زمینوں کی لیز پر پابندی کی وجہ سے بلڈنگ مافیا سادہ لوح شہریوں کو سب لیز کے سہانے خواب دکھا کر زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم کررہا ہے۔

دنیا میں شہروں کی آباد کاری کیلئے انتظامیہ مختلف اسکیمیں اور مراعات دیکر لوگوں کو بساتی ہے لیکن کراچی میں بڑھتی آبادی کے باوجود شہر میں حکومت کی طرف سے کوئی آبادیاتی اسکیم شاذو نادر ہی دیکھنے میں آتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قبضہ مافیا نے نالوں، فٹ پاتھوں، ندیوں اور سرکاری زمینوں پر بھی قبضے کرکے غیر قانونی تعمیرات شروع کررکھی ہیں۔

بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نام کا ناسور کنٹرول کے بجائے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بناچکا ہے اور دور پار سے آنے والے افسران غیر قانونی تعمیرات کی اجازت کے عوض کروڑوں کماکر واپس آبائی علاقوں کو لوٹ جاتے ہیں اور غریب عوام غیر قانونی تعمیرات کے اس جال میں پھنس کر اپنی زندگیاں بھر کی جمع پونجی سے محروم ہوجاتے ہیں۔

چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد خود کراچی کے باسی ہوکر شہر کے مسائل سے ناواقف کیسے ہوسکتے ہیں۔ کیا چیف جسٹس کو علم نہیں کہ کراچی کی تباہی میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے ایم سی سمیت پولیس اور بلدیاتی ادارے برابر کے شریک ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ چیف جسٹس غیر قانونی تعمیرات کی اجازت دینے والوں سے انجان ہوں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ چیف جسٹس کو پتا نہ ہو کہ ان غیر قانونی تعمیرات کے جعلی کاغذات کیسے بنتے ہیں۔

غیر قانونی تعمیرات بلاشبہ کسی بھی معاشرے کیلئے ایک بدنما داغ کی طرح ہوتی ہیں اور ان کا خاتمہ ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں غریب کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول ناممکن ہے وہاں ان کے سروں سے چھت چھین کر سڑکوں پر لاکھڑا کرنا بھی کسی طرح درست نہیں ہے۔

غیرقانونی تعمیرات سے انکار نہیں لیکن جب بنی گالہ ، بحریہ ٹاؤن اور بااثر شخصیات کی زمینوں اور اثاثوں کو قانونی تحفظ دیا جاسکتا ہے تو کراچی کے شہریوں کے سروں سے چھت چھیننا کیوں ضروری ہے۔

ایک عمارت چاہے وہ غیر قانونی کیوں نہ ہواس کو مستقل کرکے قانونی تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے ہاں یہ ضرور ہے کہ کسی نالے یاگزرگاہ پر بنی تعمیرات گرانا ناگزیر ہے تو وہ گرائی جائیں لیکن دیگر املاک کو مسمار کرنے سے کسی کا کوئی فائدہ نہیں اگر کسی نے سرکاری زمین پر قبضہ کیا ہے تو اس کو جرمانہ کیا جائے املاک توڑنا مسئلے کاحل نہیں ہے۔

یہ نہیں ہوسکتا ہےچیف جسٹس اس بات سے ناواقف ہوں کہ قبضہ مافیا کیسے سرکاری اداروں سے گٹھ جوڑ کرکے زمینوں پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں گھر ، پورشن یا فلیٹ بناکر بیچتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہے کہ اس شہر کے لوگ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ کس سے منصفی چاہیں کیونکہ منصفوں نے تو ان کو سائبان سے محروم کردیا ہے۔

Related Posts