سیاسی طور پر بری طرح منقسم امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی بڑی فتح کی صورت نئی تاریخ رقم کردی ہے۔ امریکی سیاسی نظم کا شعور رکھنے والے اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ وہ ایسا ملک ہرگز نہیں جہاں سیاست آزاد ہو اور سیاسی سرگرمیاں یا فیصلے سیاستدانوں کے اختیار میں ہوں۔
اگر کسی کو ہمارے کہے پر شک ہو تو برسر اقتدار صدر جوبائیڈن کے انجام سے اپنا شک دور کر سکتا ہے۔ صدر بائیڈن کسی صورت صدارتی الیکشن کی ریس سے باہر ہونے کو تیار نہ تھے۔ انہیں جبراً اس ریس سے باہر کیا گیا، جس کی تفصیل خود امریکی میڈیا میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ہم سب کو دوسری جنگ عظیم کے بعد سے یہ باور کرایا جاتا رہا ہے کہ امریکہ کا صدر دنیا کا طاقتور ترین شخص ہوتا ہے۔ امریکہ ہی نہیں دنیا بھر کے اہم فیصلے اس کی منشاء کے مطابق ہوتے ہیں۔ یوں گویا وہ پوری دنیا کا صدر ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہی ہے تو پھر دنیا کے اس طاقتور ترین شخص کو الیکشن کی دوڑ سے جبراً باہر کیسے کردیا گیا؟ یہ ملین ڈالر کا وہ سوال ہے جس کے جواب میں امریکی سیاسی نظام کی اصل حقیقت پوشیدہ ہے۔ کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ ہمارے ہاں تو نواز حکومت، بے نظیر حکومت، اور عمران حکومت کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ لیکن امریکہ میں کلنٹن انتظامیہ، بش انتظامیہ، اور بائیڈن انتظامیہ کی اصطلاح مستعمل ہے؟ “انتظامیہ” کی اصطلاح میں ہی سارا راز پوشیدہ ہے۔ آپ کسی بھی کمرشل ادارے کی مثال سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایک ہوتا ہے ادارے کا مالک اور ایک ہوتی ہے اس کی انتظامیہ۔ وہ انتظامیہ جس کی کل حیثیت “نوکر” کی ہوتی ہے۔ سو موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کو انہی لوگوں نے انتخابی دوڑ سے جبراً باہر کیا جو امریکہ کے مالکان ہیں۔ وہی مالکان جن کی گلی کو “وال سٹریٹ” کہا جاتا ہے۔
ہم اپنے ایک پچھلے کالم میں آپ کو پوری تفصیل سے آگاہ کرچکے ہیں کہ امریکہ کی سیاسی پارٹیاں ہی نہیں بلکہ انٹیلی جنس ادارے، پورے کا پورا میڈیا، تمام بڑے تھنک ٹینک، این جی اوز اور لابنگ فرمز وال سٹریٹ کی ہی ملکیت ہیں۔ یوں جنگوں اور بلیک میلنگ کی مدد سے تیل، معدنیات سمیت ہر طرح کے وسائل پر قبضے اور لوٹ مار کی جو سکیمیں امریکی حکومتیں چلاتی ہیں وہ وال سٹریٹ کے سیٹھوں کے لئے ہی ہوتی ہیں۔ یہ لوٹے گئے وسائل حکومت کے توشہ خانوں میں نہیں بلکہ امریکی کمپنیوں کے گوداموں میں جاتے ہیں۔یہی امریکہ کی کل حقیقت ہے۔
ذرا غور کیجئے۔ وہاں کوئی طویل کیریئر والا لیڈر نہیں ہوتا۔ جس نے بھی ایسے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی کوشش کی جس کی گہری جڑیں عوام کو مالکان کی غلامی سے نجات دلانے کا امکان رکھتی ہوں تو مار دیا گیا۔ یوں امریکی صدر ہی امریکہ کا لیڈر کہلاتا ہے اور اس کی لیڈر شپ کا کل دورانیہ 8 سال ہوتا ہے۔عوامی لیڈر سیٹھوں کے مفاد میں نہیں، سو اس کی وہاں کوئی گنجائش نہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ 2016ء کے صدارتی انتخابات کی دوڑ میں شامل ہوئے تو یہ وال سٹریٹ کے لئے خطرے کی گھنٹی تھی۔ کیونکہ ٹرمپ ان کے “سسٹم” کا حصہ نہیں تھے۔ ٹرمپ غیر سیاسی شخص تھے سو سیاستدانوں والی زبان نہیں جانتے تھے۔ جو منہ میں آتا کہہ دیتے۔ سیٹھوں نے سوچا موقع اچھا ہے پہلی بار کسی خاتون کو صدر بنوا دیتے ہیں۔ ورنہ عام حالات میں تو امریکی عوام کسی خاتون کو بطور صدر کبھی بھی قبول نہ کریں۔ یوں ہیلری کلنٹن میدان میں آئیں اور پورا امریکی میڈیا ٹرمپ پر پل پڑا۔ کریکٹر اساسنیشن کی بدترین مثالیں قائم کردی گئیں مگر ہو وہ گیا جس کے لئے وال سٹریٹ کسی صورت تیار نہ تھی۔ امریکی عوام نے ذہین و فطین ہیلری کی بجائے بونگے سے ٹرمپ کو چن لیا۔
خود لبرل میڈیا رپورٹ کر چکا کہ انتخابی نتائج کے اجراء کے فوراً بعد امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان ٹرمپ سے ملے اور اس سے کہا کہ وہ صدارت نہ سنبھالے مگر ٹرمپ نہ مانے۔ یوں ان پر روس سے ملی بھگت کا الزام دھر کر مواخذے کی سکیم لانچ کردی گئی۔ اسے ایک ہی دور حکومت میں دو بار مواخذوں سے گزارا گیا۔ ایسے میں 2020ء کا الیکشن آیا تو اس کے نتائج امریکی تاریخ کے مشکوک ترین نتائج ثابت ہوئے مگر بظاہر وال سٹریٹ ٹرمپ سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوگئی۔
وال سٹریٹ کے نصیب میں سکھ دو سال سے زیادہ نہ رہا۔ لگ بھگ دو برس قبل ٹرمپ نے اشارہ دیا کہ وہ 2024ء کے انتخابات بھی حصہ لے گا۔ یوں وال سٹریٹ اور اس کا زر خرید سسٹم ٹرمپ کی راہ روکنے کے لئے وہ کرنے پر تل گیا جو امریکہ کی ڈھائی سو سالہ تاریخ میں نہ ہوا تھا۔ ٹرمپ کو عدالت کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کا منصوبہ لانچ کردیا گیا۔ کہاں یہ تاریخ کہ ڈھائی سو سال میں کسی سابق صدر پر ایک بھی کیس نہیں اور کہاں یہ دن کہ ٹرمپ کو مختلف عدالتوں میں 91 الزامات کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ مگر وہ اڑ گیا کہ الیکشن تو لڑوں گا خواہ جیل سے ہی کیوں نہ لڑنا پڑے۔
الیکشن مہم شروع ہوئی تو ججز نے اسے عدالت میں موجود رہنے کا پابند کردیا تاکہ اسے الیکشن مہم کے لئے کم سے کم وقت ملے۔ اس کم وقت میں بھی اس کی مہم اتنی منظم اور تسلسل کے ساتھ تھی کہ اپنے ووٹرز میں اس کا ایک نیا تشخص ابھرنا شروع ہوگیا۔ وہی تشخص جسے ہمارے ہاں “نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا” کے لفظوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ تنگ آکر اس کی جان لینے کی بھی ایک نہیں دو بار کوشش کرلی گئی مگر اس نے بلٹ پروف شیشوں والے روسٹرم کی بھی زحمت گوارا نہ کی۔ مباحثے کا مرحلہ آیا تو پہلے ہی مباحثے میں جوبائیڈن کو ایسا ڈھیر کیا کہ وال سٹریٹ کے ہی اوسان خطاء ہوگئے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر بڑے میاں کو میدان سے باہر کرکے ایک بار پھر اس کے سامنے خاتون امیدوار کھڑی کردی گئی۔ امیدوار بھی ایسی جس کے صرف فلک شگاف قہقہے ہی مشہور ہیں۔
اس بار نتائج اتنے واضح تھے کہ 2020ء والی تاریخ دہرانے کا کوئی چانس ہی نہ بچا۔ وال سٹریٹ کے سیٹھ ایک بار پھر ٹرمپ کے ہاتھوں ہار گئے۔ امریکی عوام نے ایک بار پھر خاتون کو بطور صدر قبول کرنے سے انکار کردیا۔وہ صدارت ہی نہیں سینیٹ بھی جیت چکا۔ ہاؤس کے نتائج تا دم تحریر مکمل نہیں، مگر بعید نہیں کہ ہاؤس بھی جیت جائے۔
ایسے میں اب سوالات کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ چل نکلا ہے۔ ہر سوال کا آخری مطلب یہی ہے کہ ٹرمپ کا یہ دوسرا دور کیسا ہوگا؟ سو سب سے پہلے تو اپنے یوتھیوں کی یہ غلط فہمی دور کردیں کہ ٹرمپ فون اٹھائے گا اور ان کے لیڈر کو رہا کروا لے گا۔ اس کا دور دور تک بھی کوئی امکان نہیں۔ پہلی وجہ تو اس کی یہ ہے کہ امریکہ پاکستانی سیاستدانوں سے رشتے رکھنے کا قائل نہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید لابنگ فرمز ہائر کر کرکے تھک گئیں مگر ان کی گڈ بکس میں شامل نہ ہوسکیں۔ امریکہ کے مستقل اور پائیدار رشتے پاکستان میں صرف اور صرف اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہیں۔ یوتھیوں کے کپتان جنرل باجوہ کے چہیتے نہ ہوتے تو ٹرمپ گھاس بھی نہ ڈالتا۔ سو اگر ٹرمپ کے پاس پاکستان کے لئے وقت ہوا بھی تو اس بار بھی وہ آرمی چیف کی منشاء کو دیکھے گا۔
ہمیں نہیں لگتا کہ ٹرمپ کے پاس پاکستان کے لئے وقت ہوگا۔ اس کی پہلی وجہ تو یہ ہے کہ فی الحال امریکہ کو ہماری کوئی ضرورت نہیں۔ دوسری اور سب سے اہم وجہ یہ کہ ٹرمپ کے ایجنڈے پر پہلے سے اتنے بڑے منصوبے موجود ہیں جن کے لئے چار سال کی مدت ناکافی ہے۔ مثلاً اس کی اوّلین ترجیح تو یوکرین اور مشرقِ وسطی کی جنگی صورتحال کا خاتمہ ہوگی۔ بظاہر اسرائیل کو خوش کرنے والے بیانات دے گا مگر امکان یہی ہے کہ حتمی نتیجہ جنگ کی بندش ہی ہوگا۔ اس نے اپنے پہلے دور میں بھی جنگیں بند کرانے کو ترجیح دی تھی۔ اس لئے نہیں کہ اسے امن بہت عزیز ہے۔ بلکہ اس لئے کہ جنگیں بند کرانے کی سب سے زیادہ تکلیف وال سٹریٹ کے سیٹھوں کو ہوتی ہے۔ یہ جنگیں ہی تو ہیں جو وال سٹریٹ کے سیٹھوں کی تجوریاں بھرنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔
ان جنگوں سے نمٹنے کے بعد وہ برکس کی طرف متوجہ ہوگا۔ کیونکہ برکس امریکہ کی عالمی اجارہ داری کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ برکس میں بھی وہ خاص طور پر بھارت پر فوکس کرے گا۔ اس کی پوری کوشش ہوگی کہ بھارت کو وہاں سے نکال کر واپس امریکی کیمپ میں لائے۔ اگر بھارت اڑ گیا تو اس صورت میں ہماری کوئی چھوٹی موٹی لاٹری نکل سکتی ہے۔ مثلاً وہ اچانک پاکستان کو کوئی ایسے ہتھیار آفر کرسکتا ہے جو بھارت کو بے چین کردیں۔ حتی کہ وہ ہماری اسٹیبلیشمنٹ سے یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ذرا مقبوضہ کشمیر میں کچھ پٹاخے تو پھوڑو۔ برکس کونسا پاکستان میں مٹھائیوں کے ٹوکرے بھیج رہا ہے کہ پاکستان انکار کردے گا؟ الٹا یہ فائدہ ہوسکتا ہے کہ پیوٹن دوڑا دوڑا پاکستان آجائے۔ ضروری نہیں کہ عین ایسا ہی ہو جیسا ہم کہہ رہے ہیں مگر یہ طے ہے کہ بھارت کو برکس سے توڑنے کی کوشش ٹرمپ کی اہم ترجیح ہوگی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ کہاں تک جاتا ہے یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
خارجہ محاذ پر ہی ٹرمپ کے ایجنڈے میں یورپی یونین اور نیٹو بھی ہیں۔ بالخصوص نیٹو کے حوالے سے یورپ کو شدید خوف لاحق ہے کہ ٹرمپ امریکہ کو اس سے باہر کرسکتا ہے۔ وہ اپنے پہلے دور میں بھی نیٹو ممالک کو کیمرے کے روبرو رسوا کرچکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ امریکی انتخابات میں ہنگری کے سوا تمام یورپین ممالک ٹرمپ کی بجائے ہیرس کے حامی تھے۔ اور سب نے گویا نفل مان رکھے تھے کہ ٹرمپ ہار جائے۔ سو یہ دیکھنا بہت اہم ہوگا کہ ٹرمپ یورپ کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
داخلی طور پر سب سے اہم اقدام سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کی تحقیقاتی رپورٹ کا اجرا ہوگا۔ ٹرمپ اپنے پہلے دورِ حکومت میں بھی یہ کرنا چاہتا تھا مگر مشیروں کے کہنے پر ایسا نہ کیا۔ اس بار اس کا امکان بہت قوی ہے۔ اس خفیہ رپورٹ کا اجرا امریکہ میں زلزلے کی سی کیفیت پیدا کرسکتا ہے۔ کیونکہ اس قتل میں سی آئی اے ملوث بتائی جاتی ہے۔ سو اس رپورٹ کے اجرا سے نہ صرف سی آئی اے بلکہ وال سٹریٹ کے بھی اہم نام سامنے آسکتے ہیں۔
اگر آپ 2016ء سے اب تک کے اس پورے پس منظر کو ذہن میں رکھیں تو یہ واضح ہے کہ ٹرمپ اور امریکہ کے مالکان کے بیچ کشمکش ایک اہم مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ پیچھے ہٹنے کو ٹرمپ بھی تیار نہیں، اور وال سٹریٹ کا تو سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سو آنے والے دن زوال پذیر امریکہ کے لئے آسان نہیں۔ کوئی غیر معمولی تبدیلی بھی رونما ہوسکتی ہے، اور کوئی بڑا حادثہ بھی رونما ہوسکتا ہے۔ حادثہ سمجھتے ہیں ناں؟ چلئے مل کر دیکھتے ہیں کہ ٹرمپ کی یہ جیت کیا رنگ لاتی ہے !