اینٹی۔سیمیٹازم کیا ہے؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اینٹی۔سیمیٹازم کیا ہے؟
اینٹی۔سیمیٹازم کیا ہے؟

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو اپنے حالیہ انٹرویو میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسرائیل کے لیے ” اینٹی سیمیٹک ” کے الفاظ ادا کیے ہیں جس پر پروگرام کی اینکر نے وزیر خارجہ پر یہودی مخالف بیانیہ کا الزام عائد کیا ہے۔

وزیر خارجہ کے بیان پر سوشل میڈیا پر ملاجلا ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین جو اسرائیل کے حامی ہیں انہوں نے پروگرام کی اینکر کے صحافی اقدام کی تعریف کی ہے جبکہ فلسطینیوں کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے فلسطینی جدوجہد کے خلاف میڈیا کے تعصب پر سوال اٹھائے ہیں۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ پر 11 روزہ بمباری کے نتیجے میں 65 بچوں سمیت 232 فلسطینی شہید جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ فلسطین کی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بمباری سے زخمی ہونے والے سیکڑوں افراد کی حالت تشویشناک ہے۔ تاہم فلسطینیوں کی جدوجہد کے حق میں بات کرنے والوں نے اس ساری صورتحال میں میڈیا پر تنقید کی ہے۔

آئیے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہود دشمنی کیا ہے اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیانیہ کیا ہے؟

شاہ محمود قریشی کا انٹرویو

پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی کے امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو کو تنازع کا باعث بنایا جارہا ہے۔ پروگرام کی میزبان بییانا گولوڈریگا نے پاکستانی وزیر خارجہ پر ’یہود مخالف‘ بیان دینے کا الزام لگایا ہے۔

سی این این کے پروگرام ’امانپور‘ میں دیے گئے انٹرویو کے دوران پہلے ہی سوال کے جواب میں شاہ محمود قریشی نے اسرائیل کی ’ڈیپ پاکٹس‘ اور میڈیا میں ’اثر و رسوخ اور تعلقات‘ اور میڈیا کو ’کنٹرول‘ کرنے کی بات کی، جس پر سی این این کی اینکر بیانا گولوڈریگا نے اس بیان کو ’یہود مخالف‘ قراد دیا۔

یہ مکالمہ کافی دیر جاری رہا اور شاہ محمود قریشی انٹرویو کے دوران یہود مخالف بیانیے کی حمایت کرنے کے الزام کی تردید کرتے رہے۔

تاہم جب ان سے پہلے ہی سوال میں یہ پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس سیز فائر سے متعلق کوئی خبر ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’مجھے یقین ہے کہ چیزیں تیزی سے بدل رہی ہیں اور رائے عامہ میں تبدیلی آ رہی ہے، اور دباؤ بڑھنے کے باعث سیز فائر ناگزیر ہے۔ اسرائیل میڈیا کی جنگ ہار رہا ہے، وہ اپنے تعلقات کے باوجود یہ جنگ ہار رہا ہے۔‘

اینکر نے پوچھا: ’اس کا کیا مطلب ہے؟‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’وہ بہت بااثر لوگ ہیں، وہ میڈیا کو کنٹرول کرتے ہیں۔‘اس پر بیانا نے کہا کہ ’میں اسے ایک یہود مخالف بیان کہوں گی۔‘

پاکستانی وزیرِ خارجہ نے جواب دیا کہ ’ان کا بہت زیادہ اثر و رسوخ ہے اور انھیں بہت زیادہ کوریج دی جاتی ہے اور اس سے ہوا یہ ہے کہ عام شہریوں کی جانب سے شیئر کی جانے والی ویڈیوز کی وجہ سے وہ لوگ بھی جاگ اٹھے ہیں جو عام طور پر خاموش رہتے ہیں۔‘

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ’میں کسی راکٹ حملے کی حمایت نہیں کر سکتا لیکن میں فضائی حملوں کا بھی ساتھ نہیں دوں گا۔ مگر جب آپ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں، مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھتے اور نسل کشی جیسے ہتھکنڈے اپناتے ہیں تو پھر ایک انتہا پسند گروہ کو جگہ بنانے کا موقع ملتا ہے۔ اس کا دو ریاستی حل موجود ہے، اور اس کے لیے فوری سیز فائر ضروری ہے۔‘

اینٹی۔سیمیٹازم کیا ہے؟

یہود کے خلاف تعصب یا نفرت کا مطلب اینٹی سیمیٹازم ہے۔ 1933 سے 1945 کے درمیان نازی جرمنی اور اس کے اتحادی کی جانب سے یورپی یہودیوں پر ریاستی سرپرستی میں ہونے والے ظلم و ستم اور قتل و غارت کو ” ہولوکاسٹ ” کا نام دیا گیا جو تاریخ کی سب سے بڑی انسداد مذہب مثال تھی۔

اینٹی سیمیٹازم کی اصطلاح صرف 1879 میں جرمنی کے صحافی ولہیل مار نے تیار کی تھی۔ انہوں نے یہودیوں سے نفرت  اور 18ویں اور 19ویں صدی کے متعدد لبرل ، آفاقی ، اور بین الاقوامی سیاسی رجحانات کو یہودیوں سے وابستہ ہونے کی بھی نشاندہی کی تھی۔

یہودیت مخالف اصطلاح صرف 19ویں صدی میں ہی تشکیل دی گئی تھی، لیکن یہودیوں کے خلاف نفرت اور یہودو فوبیا (یہودیوں کا خوف) قدیم زمانے سے ہی ہے اور اس کی متعدد وجوہات بھی ہیں۔

ایڈولف ہٹلر کی سربراہی میں 1919 میں نازی پارٹی وجود میں آئی تھی۔ نسل پرستی کے نظریات کو سیاسی استحکام بخشا گیا تھا۔ جزوی طور پر نازی پارٹی نے یہودی مخالف پروپیگنڈہ پھیلاتے ہوئے مقبولیت حاصل کی۔ 1933 میں نازیوں کے اقتدار میں آنے کے بعد ، پارٹی نے یہودیوں کے خلاف معاشی بائیکاٹ ، کتابیں نذرآتش کرنے اور یہودیوں کے خلاف امتیازی سلوک کا قانون نافذ کرنے کا حکم دیا۔

9 نومبر 1938 کی رات نازیوں نے جرمنی اور آسٹریا میں یہودیوں کی ملکیتی دکانوں کو نذرآتش کردیا تھا۔ اس واقعے سابقہ ادوار میں ہونے والے مظالم کی یاد تازہ کردی تھی۔

حتمی الفاظ

میرے نقطہ نظر کے مطابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا بیانیہ کسی طور بھی یہودی مخالف بیانیہ نہیں تھا، کیوں کہ انہوں نے اسرائیلی مظالم کی مذمت کی تھی ناکہ یہودیت پرستی کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ طاقت ور ریاستیں اپنے قومی مفادات کے لئے میڈیا پر دباؤ ڈالتی ہیں ، اور اس اقدام کی مذمت کرنا نسلی تعصب نہیں ہے۔

اس حوالے سے معروف اسکالر اور مصنف نوم چومسکی بھی پاکستان میں ٹرینڈ کر رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ وہ بھی متعدد مرتبہ اس حوالے سے بات کر چکے ہیں۔

اپنے کئی لیکچرز کے دوران چومسکی اسرائیل پر تنقید کر چکے ہیں اور ایک لیکچر میں تو وہ اسرائیل کو امریکہ کا ‘ملٹری افسر’ قرار دے چکے ہیں اور امریکی میڈیا پر ‘امریکہ کی اسرائیل پالیسی کی حمایت کرنے’ اور اس حوالے سے ‘مؤثر سوالات نہ پوچھنے’ پر تنقید بھی کر چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں : وفاقی حکومت کی بجلی 1 روپے 72 پیسے فی یونٹ مہنگی کرنے کی منظوری

Related Posts