امریکا میں احتجاج اور نسل پرستی کا معاملہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کورونا وائرس اور نسل پرستی امریکا کو اس وقت ان دو بڑے بحرانوں کا سامنا ہے ،اگرچہ کورونا وائرس ایک لاکھ سے زیادہ امریکیو ں کی جانوں کو چھین چکا ہے اور ایک ملین سے زیادہ افرادمتاثر ہوئے ہیں لیکن ملک میں نسل پرستی اور پولیس کی بربریت کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔

تازہ واقعے میں منی پولس میں پولیس کی تحویل میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے معاملے پر امریکا میں شدید احتجاج کیا جارہاہے، جائے وقوع کی ایک ویڈیو میں دیکھا گیا ہے کہ ایک سفید فام افسر مقتول کی گردن پر کئی منٹ تک گھٹنا ٹیکتا ہے جس سے جارج فلائیڈ کادم نکل گیا، جارج فلائیڈ کو جعلی نوٹ کوسگریٹ خریدنے کے لئے استعمال کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن پولیس کی ہینڈلنگ اور بربریت نے موروثی مسائل کوپوری شدت سے اجاگر کیا ہے۔

اس واقعے کے خلاف بڑی تعداد میں لاک ڈاؤن پابندی کے باوجودامریکا کے مختلف شہروں میں احتجاج بھڑک اٹھا ہے۔ مظاہروں میں بیشتر فسادات اور لوٹ مار کا باعث بن گئے اور پولیس کو مزید سخت رد عمل کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کردیا۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے نیشنل گارڈ کو طلب کرکے ملک کے مختلف حصوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا ہے تاہم صورتحال اب بھی کشیدہ ہے کیونکہ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام افسران پر اس قتل کا مقدمہ درج کیا جائے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اشتعال انگیز پیغام نے مسئلے کو ختم کرنے کے بجائے مزید ابھارنے میں مدد دی اور سماجی رابطے ویب سائٹ ٹوئٹر نے بھی امریکی صدر کے دھمکی آمیز پیغامات کے پیش نظر ان کے اکاؤنٹ پر انتباہ کا لیبل لگادیاہے جبکہ امریکی صدر نے اپنے رویہ پرمعذرت خواہی ظاہر کرنے کی بجائے سوشل میڈیا ویب سائٹ کے خلاف لڑائی شروع کردی ہے ۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سفید فاموں کی بالادستی کے ساتھ نرم گوشہ رکھتے ہیں۔شارلٹس وِل میں 2017 کے ایک واقعے کے دوران جب ایک سفید نو نازی کے ذریعہ عورت کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا تھا تو اس وقت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حیرت کا اظہار کیا جب انہوں نے کہا کہ دونوں طرف بہت ہی اچھے لوگ ہیں لیکن جب جارج فلائیڈ نے گردن پر پاؤں رکھنے کے بعد چلاتے ہوئے سانس رکنے کی دہائی دی تو کسی نے اس کے الفاظ کو سنجیدہ نہیں لیا۔

امریکا میں افریقی نژاد امریکیوں اور دیگر اقلیتی طبقات کو باقاعدہ طور پر نشانہ بنانا معمول بن چکا ہے، سیاہ فام شہری اب بھی امتیازی سلوک کا شکار ہیں ، تعلیم اور روزگار کی شرح سب سے کم ہے ، جیلوں میں سیاہ فاموں کی اکثریت اور بیشتر سیاہ فام شہری غریب علاقوں میں رہتے ہیں۔

1992 میں روڈنی کنگ واقعے کے بعد سے ہی پولیس کی بربریت کا عالم منظر عام پر آیا تھا جس میں ایک سیاہ فام شخص پرتشددکو ظاہر کیا گیا تھا۔

ایک جدید امریکا میں بھی نسل کشی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنیوالوں کو کسی طرح کی مدد حاصل نہیں ہے ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ سفید فام پولیس افسران پر کبھی بھی الزام عائد نہیں کیا جاتا۔استثنیٰ کی وجہ سے پولیس اہلکاراس طرح کے واقعات دہراتے رہتے ہیں۔

Related Posts