کہاں گیا اسے ڈھونڈو۔۔۔

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

لندن کی ایک سڑک پر نیلے لباس میں ملبوس ہاتھ میں کافی کا کپ پکڑے سابق وزیراعظم نوازشریف کی تصویر سامنے آمنے کے بعد ملک میں ایک وبال سے مچ گیا ہے، سوشل میڈیا کے مجاہد نوازشریف کی حمایت اور مخالفت میں مورچہ زن ہوکر بھرپور طریقے سے دفاعی جنگ لڑ رہے ہیں۔

رواں سال کے آغاز میں بھی نوازشریف کی اہل خانہ کے ساتھ لندن کے ایک کیفے میں چائے پینے کی تصویر وائرل ہونے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں نے سابق وزیراعظم کی بیماری کو ایک ڈرامہ قرار دیا تھا۔

سابق وزیراعظم نوازشریف سزاء معطلی کے بعد بغرض علاج 19 نومبر 2019ء لندن روانہ ہوئے ، پاکستان میں موجودگی کے دوران ہر چند گھنٹوں کے بعد نوازشریف کی علالت اور حالت کی خرابی کے حوالے سے ایسی دلخراش خبریں سامنے آئیں کہ ایسا گماں ہوتا تھا کہ خدا نخواستہ نوازشریف اب گئے کہ تب گئے۔

یہاں اہم بات تو یہ ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم کو بیرون ملک علاج کی اجازت دی تو حکومت نے ناراضگی کا اظہار کیا اورنوازشریف کی بیرون ملک کیلئے روانگی کیلئے وفاقی حکومت نے 7ارب روپے کے بانڈز جمع کرانے کی شرط نے ایک نئی مشکل پیدا کی جس کا حل بھی لاہور ہائیکورٹ نے 50 روپے کے اسٹامپ پیپر کی صورت نکال لیا۔

سابق وزیراعظم کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی ہر نیوز بلیٹن میں ایسی ایسی توجیہات پیش کرتے کہ دیکھنے والے دانتوں تلے انگلیاں دبا کر نوازشریف کیلئے دعا کرنے پر مجبور ہوجاتے، ملک میں ایک اور بھٹو کی صدائیں بھی سننے میں آئیں جس پر حکومت نے خود نوازشریف کے علاج کا بیڑہ اٹھایا اور پنجاب کی وزیرصحت ڈاکٹر یاسمین راشد اور وزیراعظم پاکستان عمران خان نے خود نوازشریف کے حقیقت میں بیمار ہونے کی تصدیق کی لیکن سابق وزیراعظم کو جہاز میں ہشاش بشاش بیٹھا دیکھ کر وزیراعظم عمران خان کی طبیعت بے کل ہوگئی اور یہاں سے ایک بار پھر فضاء میں کشیدگی پھیل گئی اور تند و تیز جملوں کا ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

نوازشریف کو لندن گئے 7ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزرچکا ہے، پاکستان میں ان کے پلیٹی لیٹس اور دیگر کئی طبی مسائل کے باعث ایسا تاثر دیا جارہا تھا کہ شائد ان کی زندگی کی ڈور ٹوٹنے والی ہے لیکن ان 7 ماہ میں ان کا کوئی آپریشن نہیں ہوا بلکہ اب تک لندن کے پرفضاء ماحول اور صحت افزاء آب و ہوا سے ہی بیماری کو شکست دے رہے ہیں ، اس لئے کبھی کیفے، کبھی کافی شاپ تو کبھی چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں، گزشتہ سامنے آنے والی تصاویر میں کہیں سے بھی قریب المرگ نہیں دکھائی دیتے جیسا کہ ان کے لندن جانے سے پہلے ماحول بنایا گیا تھا۔

نوازشریف اپنی 71 سالہ زندگی میں 3 بار وزارت عظمیٰ اور ایک بار پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا لطف اٹھاچکے ہیں یہ الگ بات ہے کہ پہلی بار صدر غلام اسحاق خان نے وزارت عظمیٰ کے منصب سے برطرف کردیا تاہم عدالت سے بحالی کے بعد مستعفی ہوگئے ، دوسری جانب سابق صدر پرویز مشرف نے عہدے سے ہٹادیا اور 2013ء کے عام انتخابات میں ایک بار پھر قوم نے نوازشریف کو منتخب کیا لیکن اس بار بھی ان کو حکومت کی میعاد ختم ہونے سے پہلے عہدہ چھوڑنا پڑا۔

نوازشریف کی سیاسی تربیت جنرل محمد ضیاءالحق کے زیر سایہ ہوئی اورضیاء دور میں وہ طویل عرصے تک پنجاب حکومت میں شامل رہے اورآمریت کے زیرِ سایہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں نواز شریف بھاری اکثریت سے ہوئے ،1988ء میں پیپلز پارٹی کو شکست دینے کیلئے رقمیں تقسیم کیں ہوئیں  تو نواز شریف نے بھی اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔

نوازشریف اپنے طویل سیاسی کیریئر میں اقتدار میں رہے یا ملک سے باہر رہے ، پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نوازشریف طیارہ سازش کیس میں سزاء کاٹنے کے بجائے ایک خفیہ معاہدہ کرکے ملک سے باہر چلے گئے جس میں دس سال تک ملکی سیاسی میں مداخلت نہ کرنے کی شق بھی شامل تھی۔

نوازشریف جولائی 2018ء میں اپنی بیمار اہلیہ کو لندن میں چھوڑ کر پاکستان واپس آئے اور اس اقدام کو بے شعور سیاسی کارکنان نے اپنے قائد اور دختر قائد کی بہادری سے تشبیہ دی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اگر نوازشریف اور مریم صفدر معینہ تاریخ تک واپس نہ آتے تو ان کا سزاء کیخلاف اپیل کا حق ختم ہوجاتا اور اس حق کو بچانے کیلئے انہوں نے بادل نخواستہ وطن واپسی کا راستہ اختیار کیا اور ملک میں ووٹ کو عزت دو کی نئی تحریک شروع کرکے سیاست میں ایک نیا جوش و ولولہ پیدا کیا۔

نوازشریف نے حالات کو دیکھتے ہوئے بیماری کے معاملے کو اتنا بڑھایا کہ حکومت ان کو بیرون ملک علاج کی اجازت دینے پر مجبور ہوگئی اور حیرت کی با ت تو یہ ہے کہ جب وہ پردیس سدھارے ہیں سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں جیسا سعودی عرب جلاوطنی کے وقت سیاست سے الگ تھلگ کرلیا تھا لیکن نوازشریف اقتدار کیلئے سیاست کرتے ہیں اور ان کی خاموشی کے پیچھے ہمیشہ کوئی ڈیل یا مصلحت چھپی ہوتی ہے ،اس بار بھی لگتا ہے کہ نوازشریف پس پردہ کسی نئی مہم جوئی کی تیاریوں  میں مصروف ہیں اور اس بار بھی کسی نئی ڈیل کے بنا ان کی واپسی ممکن دکھائی نہیں دیتی۔

Related Posts