ٹرمپ کی نامزد ٹیم۔۔

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

An Evening in Chilas

ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح پر لکھے گئے اپنے کالم میں ہم نے عرض کیا تھا کہ اپنی اس دوسری ٹرم میں اس کے پاس وقت بہت کم اور ایجنڈہ بڑا ہے۔ خارجہ محاذ پر اس کے سامنے بڑے چیلنجز یوکرین اور مشرق وسطی کی جنگی صورتحال کا خاتمہ اور برکس کے پیدا کردہ چیلنجز ہوں گے جبکہ داخلی طور پر بھی وہ وال اسٹریٹ کے سیٹھوں سے روبرو ہوگا اور رو برو ہونے سے صورتحال یہ ہوگی کہ پیچھے وہ بھی نہیں ہٹے گا اور داؤ پر وال سٹریٹ کے سیٹھوں کا سب کچھ ہوگا۔

امریکی انتخابات کو تقریبا دس دن ہوچکے۔ اور ان دس دنوں میں ٹرمپ اپنی ممکنہ ٹیم کی نامزدگیوں کا بڑا حصہ پورا کرچکا۔ یہ نامزدگیاں واضح کرتی ہیں کہ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں جو وعدے کئے تھے وہ ان کے معاملے میں سنجیدہ ہے۔

اگر ہم غور کریں تو جمہوری ممالک کا عمومی انتخابی کلچر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ان کے لیڈر انتخابی مہم میں تو بڑے پرکشش وعدے کرتےہیں لیکن الیکشن جیتتے ہی جس چیز کے ذکر سے وہ بدمزہ ہوتے ہیں وہ ان کے انتخابی وعدے ہی ہوتے ہیں۔ اور وہ خود بھی فتح پاتے ہی اپنے وعدوں کے ذکر سے گریز کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ اس معاملے میں مختلف ثابت ہوا۔ جشن فتح کی تقریر میں اس نے پوری سنجیدگی سے یہ جملہ کہا

“وعدے کئے گئے ہیں، وعدے نبھائے جائیں گے”

اپنی ٹیم کی تشکیل کے سلسلے میں اس نے اب تک جن ناموں کا اعلان کیا ہے، اس سے اس تاثر کو خود امریکہ میں ہی تقویت حاصل ہوئی ہے کہ وال سٹریٹ اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لئے اس کے ارادے نیک نہیں ہیں۔ ہاں یہ ہے کہ اگر وہ اپنے وعدے نبھانے میں کامیاب ہوا تو کوئی شک نہیں کہ اس کے جو ارادے وال سٹریٹ کے لئے نیک نہیں وہ امریکہ کے لئے نیک ثابت ہوسکتے ہیں۔

اس کی نامزد کردہ ٹیم کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ وہ نیوکانز کی آلائش سے پاک ہے۔ جنگی جنون رکھنے والا یہ امریکی سیاسی عنصر ہی امریکی سفاکی کا اصل ذمہ دار ہے۔ اس کے ارکان ہر امریکی حکومت کا حصہ ہوتے ہیں۔ اور پالیسیوں کا رخ انہی کی منشاء کے مطابق طے ہوتا ہے۔

ٹرمپ کی جیت کیا رنگ لائے گی؟

یہ درحقیقت وال اسٹریٹ کے سیٹھوں کے حقیقی سیاسی سپاہی ہوتے ہیں۔ سو اگر صدر امریکہ بھی چوں چاں کرے تو یہ اس کے خلاف جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ خود ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں بھی یہ اس کی ٹیم کا حصہ تھے۔ اور وقت آنے پر یہ ٹرمپ کے خلاف ہوگئے تھے۔

ٹرمپ کی نامزد کردہ ٹیم میں وزارت خارجہ کے لئے نامزد مارکو روبیو ہلکے پھلے نیوکان ضرور ہیں مگر ان کے ارد گرد جو پلر کھڑے کئے جا رہے ہیں وہ اینٹی نیوکان ہیں۔ اسی لئے پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ مارکو روبیو ایک دو سال ہی ٹرمپ کی ٹیم میں رہ پائیں گے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم کی کچھ نامزدگیاں بیحد اہم ہیں۔ ان میں سب سے اہم سپیس ایکس، ٹسلہ، اور تویٹر ایکس کے مالک ایلان مسک ہیں۔ ان کے ساتھ وویک راماسوامی کو بھی رکھا گیا۔ ان دونوں کو بنیادی طور پر ڈاؤن سائزنگ کا ہدف دیا گیا ہے۔

ایلان مسک کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ یہ ارب پتی بزنس مین امریکی سیٹھوں کے ان روایتی خاندانوں کا حصہ نہیں جنہیں ہم “وال سٹریٹ کے سیٹھ” سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے، بلکہ اپنا سونے کا چمچہ خود ذاتی محنت سے تخلیق کیا ہے۔

دوسری اہم چیز یہ کہ انہوں نے ٹویٹر کو اس کی قدر سے زیادہ قیمت پر محض اس لئے خریدا تھا تاکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ اور لبرل حکومت کی سنسرشپ پالیسی کا پردہ چاک کرسکیں۔ چانچہ ٹویٹر کا کنٹرول سنبھالتے ہی انہوں نے جو “ٹویٹر فائلز” پبلک کیں اس سے ایک بڑا بھونچال آیا اور دنیا پر ثبوتوں سمیت واضح ہوگیا کہ امریکہ میں “اظہار کی آزادی” کا سوئم ہوچکا، چہلم کی تیاری ہے اور یہ سب وہی لبرلز کر رہے تھے جو ساری دنیا میں آزادی اظہار کے سب سے بڑے ٹھیکیدار بنے پھرتے ہیں۔ مسک کی اس حرکت پر وال سٹریٹ کے سیٹھوں نے ٹویٹر ایکس کا گلہ گھونٹنے کی ترکیب یہ نکالی کہ اس کے اشتہارات بند کردئے۔ اور یہ بائیکاٹ تاحال جاری ہے۔ مگر مسک پیچھے نہ ہٹا۔

ایلان مسک نے ٹویٹر ایکس میں ایک اہم قدم اور بھی اٹھایا تھا۔ وہ قدم یہ کہ اس نے ایک لارج سائز کا جھاڑو لیا اور ٹویٹر سے 6000 ملازمین صاف کردئے، جو کل ملازمین کا 80 فیصد تھے۔ مسک کی اپنے سر پر امریکی اسٹیبلیشمنٹ سے یہ محاذ آرائی ثابت کرتی ہے کہ وہ نتائج کی پروا نہیں کرتے۔ چنانچہ ان کی اسی خوبی کا فائدہ اب ڈونلڈ ٹرمپ اٹھانے جا رہا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ مسک اور وویک کی جوڑی بہت سے سرکاری ڈیپارٹمنٹ بند کرے گی۔ اوربہت سے ڈیپارٹمنٹس میں بڑی ڈاؤن سائزنگ ہوگی۔

اگر ہم ایلان مسک اور وویک راما سوامی کے ٹاسک کو پیش نظر رکھ کر نامزد امریکی وزیر دفاع کو دیکھیں تو پیٹ ہیگستھ ریٹائرڈ میجر ہیں۔ اور فاکس نیوز میں کام کر رہے تھے۔ ان کی بطور وزیر دفاع نامزدگی نے ریٹائرڈ جرنیلوں کے ہی نہیں وال اسٹریٹ کے بھی اوسان خطاء کردئے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ جنگ گریز سوچ کے حامل ہیں، جبکہ جنگ وال سٹریٹ کی اہم ترین ضروریات میں سے ہے۔ دوسری طرف ٹرمپ داؤن سائزنگ کے ٹاسک کے ساتھ ایلان مسک اور وویک راماسوامی کو لائے ہیں تو امریکہ میں ایک عرصے سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ امریکی فوج میں تین درجن سے زائد فور سٹار جنرلز کیا کر رہے ہیں ؟ جبکہ دوسری جنگ عظیم میں اس فوج کے صرف سات فور سٹار جنرلز تھے۔

امکان طاہر کیا جا رہا ہے کہ خرچے کم کرنے کی سکیم کے تحت ہی ایلان مسک اور وویک فوج میں بھی جھاڑو پھریں گے، اور پیٹ ہیگستھ اس میں سہولت کاری مہیا کریں گے۔ اگر امریکی فوج میں جھاڑو پھرا تو صرف جرنیلوں کی تعداد ہی کم نہ ہوگی بلکہ دنیا بھر میں پھیلے بعض فوجی اڈے بھی بند کرکے صرف انتہائی ضروری برقرار رکھے جائیں گے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسی ہفتے رپورٹ آئی ہے پینٹاگون مسلسل ساتویں سال آڈٹ میں فیل ہوگیا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ امریکی جرنیل بھی دبا کر مال بنا رہے ہیں۔

ٹرمپ کی جانب سے ایک بہت ہی اہم نامزدگی تلسی گابرڈ کی ہے۔ اس خاتون نے بطور فوجی افسر عراق اور افغانستان کی کی جنگیں قریب سے دیکھی ہیں۔ اس وقت بھی امریکی ریزرو فورس کا بطور لیفٹیننٹ کرنل حصہ ہیں۔ دو بار کانگریس کی ممبر رہ چکی ہیں۔ اور 2020ء کے انتخابات میں صدارتی دوڑ میں بھی حصہ لے چکی ہیں۔

ان کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ یہ ڈیموکریٹک پارٹی کی رکن تھیں اور اپنی ہی پارٹی ان کی دشمن بن گئی تھی۔ ہیلری کلنٹن نے ان پر “پیوٹن کی پروردہ” کا الزام لگایا۔ کیوں ؟ کیونکہ یہ امریکی جنگی جنون کی شدید مخالف ہیں۔ امریکی اسٹیبلیشمنٹ کو چیلنج کرنے سے قطعا گریز نہیں کرتیں۔ وال سٹریٹ کے سیٹھوں کو پنیں چبھونا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ انتہائی ٹھنڈے مزاج کی مالک ہیں، گفتگو دھیمی کرتی ہیں مگر اس گفتگو کی معاونت کے لئے ان کے چہرے پر جو تبسم ہوتا ہے وہ ان کے سیاسی مخالفین کے لئے جان لیوا ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ نہایت پرکشش شخصیت کی مالک ہیں۔

چند ماہ قبل انکشاف ہوا تھا کہ انہیں نو فلائی لسٹ پر رکھا گیا ہے۔ اور امریکہ میں اندرونی سفر کے دوران جہاز پر سات سے دس ایجنٹ ان پر نظر رکھنے کے لئے تعینات ہوتے ہیں۔

اس خبر کی کہیں سے بھی تردید نہ آئی تھی۔ نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انہیں امریکہ کی سب سے طاقتور انٹیلی جنس ایجنسی نیشنل انٹیلی جنس کا سربراہ نامزد کیا ہے۔ اس ایجنسی کے سربراہ کی اہمیت کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ سی آئی اے سمیت امریکہ کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ اسے جوابدہ ہیں۔ گویا ایجنسیوں کی ستائی یہ خاتون ہی اب ان ایجنسیوں کی “ساس” بننے جا رہی ہیں۔

قابل غور بات یہ ہے کہ تلسی گابرڈ امریکی ایجنسیوں پر بھی تین حوالوں سے شدید تنقید کرتی آئی ہیں۔ اولا یہ کہ ہماری ایجنسیاں دنیا بھر میں تختے الٹنے، اور من پسند حکومتیں مسلط کرنے کا کام کیوں کرتی ہیں ؟ اور کس قانون کے تحت کرتی ہیں ؟ یہ سلسلہ بند ہونا چاہئے۔

دوم یہ کہ ہماری ایجنسیاں دنیا بھر میں خفیہ آپریشنز کس قانون کے تحت کرتی ہیں جن میں بڑے قتل بھی شامل ہوتے ہیں ؟ تیسرا یہ کہ ہماری ایجنسیاں امریکی شہریوں کی جاسوسی کیوں کرتی ہیں ؟ اور انہیں ہراساں کیوں کیا جاتا ہے ؟ یہیں سے اندازہ لگا لیجئے کہ یہ نامزدگی کیا رنگ لانے والی ہے ؟

ان نامزدگیوں نے امریکہ کے اصل حکمرانوں کی نیندیں تو حرام کردی ہیں۔ جس کا اندازہ مین سٹریم میڈیا کے دن رات کے واویلے سے بخوبی ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم سوال یہ ٹھایا جا رہا ہے کہ کیا سینیٹ یہ نامزدگیاں منظور کرلے گی ؟ یہ سوال اس لحاظ سے تو اہم ہے کہ امریکہ میں کابینہ، سول و ملٹری بیروکریسی، اور اعلی عدلیہ میں تعیناتی کا طریقہ کار یہ ہے کہ صدر لوگوں کو نامزد کرتا ہے اور سینیٹ کی متعلقہ کمیٹی کڑے انٹرویو کے بعد ان کی منظوری دیتی ہے یا مسترد کردیتی ہے۔

رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز 

بالعموم ہوتا یہ ہے کہ اگر کوئی نام مسترد ہوجائے صدر سینیٹ سے الجھتا نہیں بلکہ اس کا فیصلہ قبول کر لیتا ہے۔ کیونکہ صدر سینیٹ اور ایوان نمائندگان کے بعض دیگر اختیارات کے آگے بے بس ہوتا ہے۔ جن میں تعیناتیوں کا یہ اختیار شامل نہیں۔ سو ان دیگر امور میں پریشانیوں سے بچنے کے لئے صدر خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن اگر صدر ڈونلڈ ٹرمپ جیسا ہو تو بعید نہیں کہ وہ سینیٹ کی جانب سے کسی اہم نامزدگی کا مسترد کیا جانا قبول کرنے سے انکار کردے۔ اس صورت میں یہ امکان بہر حال موجود ہے کہ وہ ری سیس کی آپشن اختیار کرکے اپنے نامزد شخص کی تعیناتی حاصل کرلے۔

اب دیکھنا بس یہ باقی ہے کہ ٹرمپ اپنی من چاہی ٹیم کی منظوری کے لئے آخری حد تک جاتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ امکان یہی ہے کہ تلسی گابرڈ کی سینیٹ منظوری دینے سے انکار کرسکتی ہے۔ اسی طرح کا معاملہ نامزد اٹارنی جنرل کے حوالے سے بھی پیش آنے کا قوی امکان ہے۔ اس عہدے کے لئے ٹرمپ نے کانگریس مین میٹ گیٹز کو نامزد کیا ہے جو جذباتی حد تک اسٹیبلیشمنٹ مخالف ہیں۔ ان کا جذباتی ہونا ان کی نامزدگی میں بڑی رکاوٹ بنے گا۔ سیاسی امور کے امریکی ماہرین توقع ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ نامزگی اگر مسترد ہوئی تو ٹرمپ برداشت کی راہ اختیار کرے گا۔

بات ایک بار پھر وہی ہے ٹرمپ بضد ہے۔ اور وال سٹریٹ کا سب کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اس تاثر کو اب ٹرمپ کی نامزدگیوں نے حقیقت کا روپ دیدیا ہے۔ ظاہر ہے وال سٹریٹ پیچھے نہیں ہٹے گی۔ وہ پہلے روایتی طریقوں سے ٹرمپ کو ناکام کرنے کی کوشش کریگی۔ اور اگر اس میں ناکامی ہوئی تو پھر “حادثہ” بھی ہوسکتا ہے لیکن اگر ٹرمپ کو ناکام نہ کیا جاسکا، اس کی اپنی ٹیم سے توقعات پوری ہوگئیں اور وہ واقعی ایک بڑی تبدیلی رونما کرنے میں کامیاب ہوگیا تو کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت مختلف امریکہ ہوگا۔ کون کامیاب ہوگا، ٹرمپ یا وال سٹریٹ ؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا !

Related Posts