وزیرِ اعظم عمران خان کی زیرِ قیادت پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی کامیابی ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق پالیسیاں رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 5 جون کو پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے تحفظِ ماحولیات پروگرام (یو این ای پی) نے عالمی یومِ ماحولیات کی میزبانی کیلئے منتخب کیا جو حکومتی کاوشوں کا بہت بڑا اعتراف اور قومی اعزاز ہے۔
نوشہرہ میں ایک ارب درختوں کی گنتی پوری ہونے پر وزیرِ اعظم عمران خان نے اسی مقام پر پودا لگایا جہاں سے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع ہوا تھا۔ اس طرح وزیرِ اعظم نے قیادت کا وہ مظاہرہ کیا جس کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ آب و ہوا کی تبدیلی کوئی فرضی بات نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے صورتحال کی سنگینی کا ادراک نہ کرتے ہوئے کاربن کے اخراج کو کم کرنے کیلئے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔
ترقی یافتہ ممالک کی غیر سنجیدگی کے نتیجے کے طور پر پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کو بھی آب وہوا میں تبدیلی کے سنگین اثرات کو کم کرنے اور آئندہ نسلوں کے تحفظ کیلئے ماحول دوست اقدامات کرنا ہوں گے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ سابقہ ادوارِ حکومت میں جنگلات کے رقبے، درختوں کی زندگی کی حفاظت، صاف پانی کی فراہمی اور آلودگی کم کرنے کیلئے طویل مدتی پالیسیوں پر کام نہیں کیا گیا۔ آج پاکستان اس کے اثرات بھگت رہا ہے کیونکہ ہم پانی کے شدید بحران، گرمی کی لہروں، موسم کی شدت، تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز اور شدید خشک سالی کا شکار ہو رہے ہیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے ملک کے 10 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر محیط جنگلات کی بحالی کے منصوبے کے علاوہ مینگروز کی بحالی، شہری جنگلات کی ترقی، اسکولز، کالجز، عوامی پارکس اور گرین بیلٹس میں درخت لگانے کی مہم کا آغاز بھی کیا جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے قدرتی حل میں مدد ملے گی اور موحولیاتی تغیرات کو کم کرنے میں آسانی ہوگی۔
سن 2020ء حساب کتاب کا سال ثابت ہوا کیونکہ اس میں پاکستان کو متعدد بحرانوں کا سامنا رہا جس میں کورونا وائرس کی وباء، ماحولیاتی تبدیلی اور آلودگی کے اثرات شامل ہیں۔ ہمیں ہر قسم کے بحران سے نکلنے اور زمین کی بقاء کیلئے فطری ماحول کی بحالی کی اہمیت سمجھانے سے متعلق بھی اقدامات کرنا ہوں گے اور عالمی برادری کو اس پر متحد ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے پوری نسلِ انسانی یکساں طور پر متاثر ہورہی ہے۔
پاکستان کو بھی درختوں کی شجرکاری سمیت موسمیاتی تبدیلیوں سے متعلق اقدامات تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ کراچی جیسے خشک علاقوں میں شجر کاری کو فروغ دیا جانا چاہئے جو گرمی کی لہروں اور درجۂ حرارت میں ریکارڈ تبدیلیوں کا شکار ہورہا ہے۔ درخت لگانا اور ان کی حفاظت ہماری اخلاقی و مذہبی ذمہ داری بھی ہے تاکہ ماحولیاتی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ غذا کی حفاظت کو یقینی بنانے، پانی کی فراہمی میں اضافے اور اپنی زندگی کو محفوظ بنانے کیلئے بھی شجرکاری ایک لازمی فریضہ ہے۔