اطلاعات کے مطابق گزشتہ دن سرحدی علاقے چمن کے علماء، تاجروں اور قبائلی عمائد پر مشتمل ایک وفد نے قندھار میں افغان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات کی ہے۔
اس ملاقات اور فریقین کے درمیان بات چیت کی سامنے آنے والی تفصیلات میں کہا گیا ہے مذاکرات میں دونوں ملکوں کے درمیان سرحد پر پیش آنے والے پر تشدد واقعات کی روک تھام اور باہمی غلط فہمیوں کے خاتمے کیلئے کام کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
بتایا گیا ہے کہ مذاکرات کے دوران افغان نمائندوں نے اس امر کا عہد کیا کہ آئندہ ان کی طرف سے فائرنگ میں پہل نہیں ہوگا اور کوشش ہوگی کہ دونوں ملکوں کے درمیان غلط فہمیاں دوبارہ مسلح تصادم کی طرف نہ بڑھ سکیں۔
یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ہماری مشرقی سرحد کے ساتھ اب ایک عرصے سے مغربی سرحد بھی بے امنی کی آماجگاہ بن گئی ہے اور پاکستان کو اپنی مشرقی سرحد کے ساتھ اب مغربی سرحد پر بھی سخت دفاعی اقدامات کرنا پڑ رہے ہیں۔
پاکستان کے عوام کیلئے یہ امر اس پس منظر میں زیادہ تکلیف دہ ہے کہ پاکستان کی افغانستان کے ساتھ بھارت جیسی دشمنی کی بنیادیں موجود نہیں ہیں۔ پاکستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ افغانستان پاکستان کا برادر ملک ہے اور دونوں ممالک مذہب، تاریخ اور نسل و لسان کے گہرے اور مضبوط رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں، چنانچہ پاکستان کے عوام اپنی مغربی سرحد پر اس طرح کی دشمنی کے مظاہر کی توقع ہرگز نہیں رکھتے، جس طرح کے حالات و مسائل کا پاکستان کو بھارت کے ساتھ واقع مشرقی سرحد پر روز اول سے سامنا ہے۔
افغان طالبان کو عمومی طور پر پرو پاکستان سمجھا جاتا رہا ہے اور اسی وجہ سے پاکستان کے عوام میں بڑی حد تک افغان طالبان کیلئے نرم گوشہ بھی رہا ہے، اس پس منظر میں آج خلاف توقع افغان سرحد پر انڈین بارڈر کی طرح جھڑپیں یقیناً پاکستانی عوام کیلئے سخت تحیر آمیز ہیں۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ امن و سلامتی خطے کی بڑی ضرورت ہے، پاکستان کے ساتھ افغان حکومت کے مسائل میں سے ایک بڑا اور بنیادی مسئلہ افغان سرزمین سے پاکستان میں ہونے والے حملے ہیں، انہی حملوں کی روک تھام کیلئے پاکستان اپنی بارڈر سیکورٹی سخت کرنے اور سرحد پر آہنی باڑ لگانے پر مجبور ہے۔ پاکستان کے بارڈر سیکورٹی کے یہ اقدامات امریکی انتداب کے زیر سایہ کابل انتظامیہ کو بھی چبھتے رہے ہیں اور آج طالبان انتظامیہ کو بھی ان پر تحفظات اور اعتراضات ہیں، تاہم افغان حکام پاکستان کا یہ عذر سمجھنے کیلئے تیار نہیں کہ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی سرگرمیوں کے باعث یہ اقدامات پاکستان کی مجبوری ہیں۔
افغانستان کی طالبان انتظامیہ اب تک افغان سرزمین سے ہونے والی ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کو سنجیدہ نہیں لے رہی اور سابق رژیم کی طرح ڈپلومیٹک لیپاپوتی سے حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کر رہی ہے، مگر اسے سمجھنا چاہیے کہ جب تک پاکستان میں افغان بیسڈ دہشت گردی ہوتی رہے گی، بطور حکومت اس کی ذمے داری سے وہ دامن نہیں بچا پائے گی۔
طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ افغان سرزمین سے پاکستان پر ہونے والے حملوں کی روک تھام ان کی دوحہ معاہدے کے تحت پوری دنیا کے ساتھ کی جانے والی کٹمنٹ کا بھی بنیادی تقاضا ہے۔ ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں پر آنکھ بند کرکے طالبان انتظامیہ دنیا کے ساتھ کیے گئے اپنے اس وعدے کو توڑنے کی مرتکب ہو رہی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ امن و سلامتی پورے خطے بالخصوص افغان عوام کی بڑی ضرورت ہے اور امن کیلئے سرحدوں کا پر امن ہونا ضروری ہے، جبکہ پاک افغان سرحد افغانستان میں ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروپوں کی موجودی میں پر امن نہیں ہوسکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے افغان حکومت سرحدوں پر امن کیلئے ٹی ٹی پی کے تئیں پاکستان کے تحفظات پر سنجیدہ توجہ دے۔