تعلیم ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اسے کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے سنگ بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایک عرصے سے تعلیم کی حالت ابتر ہے۔ صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے مختلف حکومتوں کی کوششوں کے باوجود، تازہ ترین دستیاب حقائق اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کی حالت اب بھی تسلی بخش نہیں۔
پاکستان کی تعلیمی شماریات کی رپورٹ 2019-20 کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 60 فیصد ہے، جس میں کافی صنفی فرق ہے۔ مردوں کے لیے خواندگی کی شرح 71% ہے، جب کہ خواتین کے لیے یہ صرف 49% ہے۔ مزید یہ کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 50.7 ملین بچوں میں سے 22.8 ملین اسکولوں سے باہر ہیں اور ان میں سے اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ یہ ایک تشویشناک صورتحال ہے جس پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
ملک میں تعلیم کے شعبے کو درپیش سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک فنڈز کی ناکافی تخصیص ہے۔ حکومت تعلیم کے لیے مطلوبہ فنڈز پورے نہیں کر سکی۔ نتیجتاً تعلیم کا شعبہ معیاری انفراسٹرکچر، تربیت یافتہ اساتذہ اور تدریسی مواد سمیت ضروری وسائل سے محروم ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ معیاری تعلیم کا فقدان ہے۔ بہت سے اسکولوں میں میز، کرسیاں اور پینے کے صاف پانی جیسی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ مزید یہ کہ تدریسی معیار ابتر اور نصاب پرانا اور فرسودہ ہے جو تنقیدی سوچ اور تجزیاتی مہارت کو فروغ نہیں دیتا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلباء کو جدید دنیا کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ موجودہ نظام کرپشن، اقربا پروری اور احتساب کے فقدان جیسے مسائل سے دوچار ہے۔ تعلیمی نظام میں نااہل اساتذہ کی تعیناتی، گھوسٹ سکولز اور غیر حاضری عروج پر ہے۔ اس کے نتیجے میں نظام پر اعتماد کی کمی اور عوام کی تعلیم میں دلچسپی کم ہوئی ہے۔
حالات کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا قدم تعلیم کے لیے مختص بجٹ میں اضافہ کرنا ہوگا۔ حکومت کو تعلیم کو ترجیح دینے اور جی ڈی پی کا کم از کم 4 فیصد اس شعبے کے لیے مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بڑھے ہوئے بجٹ کو تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے، بنیادی سہولیات کی فراہمی اور تربیت یافتہ اساتذہ اور تدریسی مواد کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔
مزید برآں طلباء میں تنقیدی سوچ اور تجزیاتی مہارت کو فروغ دینے کے لیے نصاب کو نظر ثانی اور اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے انہیں جدید دنیا اور معاشرے میں مثبت کردار ادا کرنے میں مدد ملے گی۔ حکومت کو طلبہ و طالبات کو عملی مہارتوں سے آراستہ کرنے کے لیے پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم فراہم کرنے پر بھی توجہ دینی چاہیے جس سے ان کی روزی روٹی کمانے میں مدد مل سکتی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ تعلیمی شعبے میں نئی اصلاحات متعارف کرائے تاکہ شفافیت اور احتساب کو بہتر بنایا جا سکے۔ یہ سکولوں کا باقاعدہ آڈٹ کرانے، سکولوں میں اساتذہ کی موجودگی کو یقینی بنانے اور بدعنوانی اور اقربا پروری کے مرتکب پائے جانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
بلاشبہ پاکستان میں تعلیم کا شعبہ ابتر حالت میں ہے اور صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت کو تعلیم کو ترجیح دینے اور اس شعبے کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کرنے کی ضرورت ہے۔ نصاب کو نظر ثانی اور اپ ڈیٹ کرنے کی ضرورت ہے اور طلباء کو پیشہ ورانہ اور تکنیکی تعلیم فراہم کی جانی چاہیے۔
مزید برآں، حکومت کو تعلیمی نظام میں شفافیت اور احتساب کو بہتر بنانے کے لیے اصلاحات متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے ہی ہم امید کر سکتے ہیں کہ پاکستان میں تعلیم کی حالت میں بہتری آئے گی اور بچوں کے روشن مستقبل کی راہ ہموار ہو گی۔