صحرائے تھر میں خودکشی کا رجحان

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!

صوبہ سندھ میں واقع صحرائے تھر وہی ریگستان ہے جو سرحد پار راجستھان کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ہم نے 1947ء میں قیامِ پاکستان کے بعد جو سرحد قائم کی، اس کے دونوں اطراف طرزِ بودوباش میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔

گزشتہ کچھ برسوں سے تھر میں خود کشی کے رجحان میں خطرناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ اس خبر کو 2019ء سے اخبارات اور بعض اوقات ٹی وی چینلز پر بھی جگہ ملی۔

تھر فاؤنڈیشن کی مالی معاونت سے سندھ مینٹل ہیلتھ اتھارٹی نے حالیہ تحقیق میں یہ راز آشکار کیا کہ خودکشی کرنے والے 24فیصد افراد پہلے سے ذہنی امراض میں مبتلا تھے اور 9 فیصد بھاری بھرکم قرض کے بوجھ تلے دب چکے تھے۔

خودکشی کرنے والے کم و بیش 60 فیصد افراد کی عمریں 10 سے 20 سال کے درمیان تھیں جبکہ تقریباً 36فیصد 21 سے 30 سال کے جوان افراد تھے۔

اپنی زندگی اپنے ہاتھوں سے ختم کردینے والی 45فیصد خواتین اور 15 فیصد مردوں نے رسمی تعلیم حاصل ہی نہیں کی تھی۔ کم و بیش 76 فیصد خودکشی کرنے والے دماغی صحت کے ماہرین سے مشاورت کیلئے کبھی ملاقات نہیں کرسکے۔

صحرائے تھر میں خودکشی کے رجحان میں اتنے خطرناک اضافے کی سب سے بڑی وجہ بد ترین غربت اور معاشی بدحالی ہوسکتی ہے۔ دماغی صحت اور گھریلو مسائل بھی خودکشی کی بڑی وجوہات قرار دئیے جاتے ہیں۔

بے روزگاری کو بھی خودکشی کی بڑی وجہ کہا جاسکتا ہے۔ صحرائے تھر جیسے علاقے میں قدرتی طور پر بھی صنعتوں اور دیگر ذرائع روزگار نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس ضمن میں حکومت کی جانب سے بھی خاطرخواہ اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ تھر کے بہت سے لوگ اپنے آبا و اجداد کی زمین چھوڑ کر شہروں کو ہجرت کرنے پر اس لیے مجبور ہوئے کہ ان کی زمین حکومت نے متعدد ترقیاتی پراجیکٹس کیلئے حاصل کر لی تھی۔

روزگار کی کمی، معاشی مسائل اور اپنے گھر سے بے گھر ہونے کے بعد غربت اور معاشی بدحالی میں مزید اضافہ ہوا اور عین ممکن ہے کہ تھر کے بہت سے باسیوں نے اسی وجہ سے بھی خود کشی کو ترجیح سمجھا ہو۔

اسلام میں خودکشی کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے مایوسی گردانتے ہوئے انتہائی مذموم فعل قرار دیا گیا ہے جس کی سزا انتہائی سخت ہے۔ ایک عام مسلمان کا ماننا یہ ہے کہ جو شخص خودکشی کرتا ہے، آخرت میں جس طریقے سے اس نے خودکشی کی تھی، اسی طریقے سے بار بار موت کی سزا اس کا مقدر بنے گی۔

ضروری ہے کہ تھر کے باسیوں میں اسلامی شریعت کے متعلق بھی آگہی اور شعور بیدار کیا جائے، انہیں تعلیم اور روزگار فراہم کیا جائے اور وہ معاشی بدحالی ختم کرنے کیلئے تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے جائیں جن کے تحت خودکشی کے رجحان کو کم کرنے میں مدد مل سکے۔