قصہ الجولانی کے آبائی گھر کا!

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

برطانوی اخبار “ٹائمز” کی ایک رپورٹ میں شامی انقلاب کے قائد اور انقلابی فورسز کے اتحاد ہیئۃ تحریر الشام کے سربراہ احمد الشرع المعروف ابو محمد الجولانی کی شخصیت اور زندگی کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ الجولانی نے دمشق کے المِزة علاقے میں واقع اس اپارٹمنٹ کا دورہ کیا، جس میں انہوں نے اپنا بچپن گزارا ہے۔ اس کے علاوہ رپورٹ میں ان کی عراق میں لڑائی کے لیے روانگی، پھر شام واپسی اور ان کے موقف میں آنے والی تبدیلیوں کی تفصیل بھی بیان کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق شام کے نئے حکمران کہلانے والے الجولانی نے دارالحکومت میں اپنی فتح کے بعد اس عمارت کا خصوصی دورہ کیا، جہاں وہ پلے بڑھے تھے۔ یہ شام کے جنوب مغربی دمشق میں واقع ہے۔ انہوں نے دسویں منزل تک لفٹ کے ذریعے سفر کیا اور اپنے پرانے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ اس وقت اپارٹمنٹ میں موجود مکین مکینیکل انجینئر احمد سلیمان اور ان کی اہلیہ الجولانی کو اپنے دروازے پر دیکھ کر حیران رہ گئے، تاہم عمارت کے چوکیدار عامر، جو اس واقعے کے گواہ تھے، نے بتایا کہ الجولانی کا رویہ نہایت مہذب تھا۔
الجولانی نے پوچھا: “کیا آپ اس اپارٹمنٹ کو خالی کرنے پر اعتراض کریں گے؟ میرے والدین کے اس جگہ کے ساتھ بہت سی خوشگوار یادیں وابستہ ہیں اور وہ مصر سے یہاں واپس آنا چاہتے ہیں؟”

اتوار کی صبح کے چند گھنٹوں میں شام کا منظرنامہ بدل گیا۔ ڈاکٹر سلیمان اور ان کی اہلیہ جیسے بہت سے لوگوں کے لیے یہ ایک خوفناک لمحہ تھا۔ یہ اپارٹمنٹ انہیں اسد حکومت کی طرف سے دیا گیا تھا، جس نے اسے ضبط کر لیا تھا، جب الجولانی کی باغیوں کے رہنما کے طور پر شناخت ہوئی اور ان کے والدین کو بھی دمشق سے ہجرت کرکے مصر جانا پڑا تھا۔
چونکہ ہیئۃ تحریر الشام، جو اس وقت شام کا اصل فاتح گروپ ہے، نے سب کو یقین دلایا ہے کہ کسی کو اپنے مستقبل کے بارے میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں جب تک اس کے ہاتھ خون سے رنگے نہ ہوں۔ تمام حقوق، بشمول جائیداد کے حقوق، پرامن طریقے سے بحال کیے جائیں گے، کسی پر ظلم نہیں ہوگا اور جس کے گھر پر اسدی حکومت کے کارندوں نے قبضہ کرکے کسی اور کو گفٹ کیا ہے، اس سے گھر خالی کراکے اصل مالکان کو واپس دلایا جائے گا۔

اعتراضات سامنے آگئے، صدر نے مدارس رجسٹریشن بل کو ملک کیلئے خطرناک قرار دے دیا

بہرحال عمارت کے چوکیدار نے بتایا کہ الجولانی نے ڈاکٹر سلیمان کو اپنا سامان باندھنے کے لیے کئی دن کی مہلت دی۔ یہ واپسی اس شخص کے لیے ایک غیر معمولی واقعہ تھی، جو صرف ایک ہفتہ قبل شام میں حکومت کا سب سے بڑا دشمن سمجھا جاتا تھا۔ اب الجولانی اپنے امیج کو ایک معتدل رہنما کے طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ ان کا ماضی شام اور عراق میں القاعدہ کے ساتھ جنگ سے وابستہ رہا ہے۔
سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ المِزة کا علاقہ، جو دمشق کے مغربی کنارے پر واقع ہے اور جہاں احمد الشرع (ابو محمد الجولانی کا اصل نام) کی فیملی اس وقت منتقل ہوئی تھی جب وہ سات سال کے تھے، یہاں کے اکثر لوگوں کا ذہن اسد حکومت کے ساتھ منسلک تھا۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں حکومت کے اعلیٰ عہدیدار اور امیر کاروباری شخصیات رہتے ہیں، جو المزة کے فوجی ہوائی اڈے کے قریب ہے اور وزارتوں سے بھری ہوئی ایک گلی ہے، جس میں وزارتِ انصاف کا مرکزی دفتر بھی شامل ہے۔
تاہم یہ جگہ ان کی درمیانے طبقے کی فیملی کے لیے ایک مناسب رہائش گاہ بن گئی۔ احمد کے والد، جو تیل کے انجینئر تھے، کو گولان کی پہاڑیوں میں اپنے گھر سے اس وقت نکلنا پڑا جب اسرائیل نے 1967ء کی چھ روزہ جنگ میں اس علاقے پر قبضہ کیا۔ احمد الشرع کے والد کا حکومت کے ساتھ تعلق ہمیشہ سے غیر مستحکم رہا اور اس کے بعد وہ سعودی عرب چلے گئے، جہاں 1982ء میں احمد پیدا ہوئے۔ سعودی عرب میں کام مکمل کرنے کے بعد، ان کا خاندان المزة میں آ بس گیا، جہاں انہوں نے ایک چھوٹی سی دکان اور ایک رئیل اسٹیٹ ایجنسی کھولی۔ جنگ کے ابتدائی مراحل میں حکومت نے ان کی دکان پر قبضہ کر لیا۔ اگرچہ ایجنسی بھی بند ہو گئی، لیکن وہ اب بھی “الشرع للعقارات” کے نام سے مشہور ہے۔
احمد الشرع اپنی نوجوانی میں ایک خاموش اور شرمیلے شخص کے طور پر جانے جاتے تھے اور بہت کم مواقع پر ان کے چہرے پر خوشی کے آثار نظر آتے تھے، جیسا کہ ان کے قریب رہنے والے لوگ بتاتے ہیں۔ علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک گوشہ نشین شخصیت کے حامل تھے، یہ باتیں اس علاقے کے حجام اور جولانی کے ساتھ بچپن میں لڈو کھیلنے والے نوجوان نے بھی میڈیا کو بتائی ہیں۔ حجام، جس نے اپنا نام محمد بتایا، نے یاد کیا کہ وہ احمد کے ساتھ ان کے بال کاٹتے وقت بات چیت کرتے تھے۔ محمد نے کہا “شاید آخری بار کوئی 15 سال پہلے کی بات ہو گی۔ وہ بہت شرمیلے اور مہذب تھے۔ پھر ایک دن وہ غائب ہو گئے اور اس وقت ہم ہم حیران رہ گئے جب انہیں کچھ سال بعد ٹی وی پر ابو محمد الجولانی کے نام سے دیکھا۔”
المزہ کے ایک سابق رہائشی، جو اب بیرون ملک مقیم ہیں، نے کہا کہ وہ اس محلے میں کاروبار کرتے تھے، جہاں احمد الشرع کی فیملی کی ایک بقالہ تھی۔ احمد انہیں سودا پہنچاتے تھے۔ انہوں نے کہا “ہم اکثر بیٹھ کر بات چیت کرتے تھے۔ مجھے وہ پسند تھے، کیونکہ وہ خاموش، شرمیلے اور متین نوجوان تھے۔ احمد کے چہرے پر ہمیشہ ایک غمگین تاثر ہوتا تھا، گویا وہ “پوری دنیا سے ناراض” ہیں۔

بشار الاسد کیلئے لڑنا ہماری ذمے داری نہیں تھی، خامنہ ای

احمد الشرع (ابو محمد الجولانی) نے خود انکشاف کیا کہ 2000ء میں ہونے والی فلسطینی انتفاضہ وہ لمحہ تھا جس نے مجھے جہاد کی راہ چننے پر مجبور کیا۔ اور 11 ستمبر 2001ء کے حملوں کے بعد، وہ عراق منتقل ہو گئے، جہاں وہ 2003ء میں امریکہ اور برطانیہ کی قیادت میں ہونے والے حملے سے پہلے پہنچے۔ اس عرصے میں شامی حکومت کے کچھ عجیب اقدامات دیکھنے کو ملے۔ نظریاتی طور پر، یہ حکومت ایک سیکولر نظام تھا اور صدام حسین کے نظام کی مخالفت کرتا تھا لیکن وقت کے ساتھ، شامی انٹیلی جنس نے نوجوانوں کو امریکیوں کے خلاف عراق میں جنگ کے لیے جانے کی حوصلہ افزائی کی۔ شاید اس کا مقصد دو مسائل کو ایک ہی قدم میں حل کرنا تھا: شام میں موجود اسلامی عناصر سے چھٹکارا پانا اور امریکی افواج کو مصروف رکھنا تاکہ وہ شامی حکومت کو گرانے پر توجہ نہ دے سکیں۔
لیکن یہ حکمت عملی الٹ ثابت ہوئی۔ ابو محمد الجولانی عراق میں القاعدہ کی ایک شاخ میں نمایاں ہو گئے، جو اپنی شدت پسندانہ کارروائیوں کے لیے معروف تھا۔ ایک جھڑپ کے دوران امریکی فورسز نے الجولانی کو گرفتار کیا اور عراق کے بوکا کیمپ میں رکھا۔ یہ وہی جیل تھی جہاں متعدد جہادی رہنماؤں کو قید کیا گیا تھا، جن میں سابق داعش رہنما ابو بکر البغدادی بھی شامل تھے۔
2011 ء میں، البغدادی نے الجولانی کو شام بھیجا تاکہ وہ جبهة النصرة کے نام سے ایک نئی تنظیم قائم کریں، جو بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑ سکے لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے، خاص طور پر البغدادی کی پسندیدہ شدت پسندانہ حکمت عملیوں، جیسے اجتماعی قتل اور سرقلمی پر۔ 2013 ء کے موسم بہار میں، الجولانی نے داعش سے مکمل طور پر علیحدگی اختیار کر لی۔ اگلے برسوں میں انہوں نے القاعدہ سے بھی خود کو الگ کیا اور اپنی افواج کو نسبتاً کم شدت پسند اسلامی گروہوں کے ساتھ ضم کر دیا۔ الجولانی نے اعلان کیا کہ ان کا مقصد صرف شام کی آزادی ہے، جس میں ایک اسلامی طرز حکومت کی جھلک شامل ہو۔
گوناگوں مذہبی اور نظریاتی تنوع کے احترام کی الجولانی کی یقین دہانی المزة کے رہائشیوں کے لیے بہت اہم ہے۔ بعض کے لیے اپنے نئے ہمسائے کے بارے میں رائے پیچیدہ ہے اور ایک طرح کی دُہری سوچ کی عکاسی کرتی ہے، جو آمریت کے سائے تلے رہنے والوں کے لیے عام ہے۔
الجولانی کی دہشت گرد کے طور پر تصویر، جو حکومتی میڈیا نے پھیلائی تھی، لوگوں کے ذہنوں سے مٹانا آسان نہیں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسے مجاہد آزادی کی تصویر کو بھی نظرانداز کرنا مشکل ہے، جس نے عالمی طور پر غیر مقبول حکومت کو ختم کیا، جس کی ساکھ اپنی حمایت کرنے والے عوام میں بھی ختم ہو گئی تھی اور پھر اس لڑکے کی تصویر بھی ہے، جو ایک ہونہار اور خاموش طبع نوجوان تھا اور میڈیکل کی تعلیم شروع کر چکا تھا، جیسا کہ المزة کے کچھ رہائشی یاد کرتے ہیں۔
بہت سے لوگوں نے “نئے آزاد شام” کی اس الجھن پر بات کرنے کی خواہش ظاہر کی، لیکن شرط یہ تھی کہ ان کے نام نہ لیے جائیں۔ تاہم دیکھنا باقی ہے کہ مستقبل میں انہیں کتنی آزادی ملتی ہے۔ سامر، ایک ریٹائرڈ انجینئر جو الجولانی کے والد کو جانتے تھے، نے اقتدار سنبھالنے کے بعد احمد الشرع کی جانب سے اپنے اصلی نام کے استعمال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: “ہم امید کرتے ہیں کہ وہ الجولانی کا نقاب اتار دے اور حقیقی معنوں میں احمد الشرع بن جائے۔”
سامر نے مزید کہا کہ المزة جیسی جگہیں سیکولر علاقوں میں شمار ہوتی ہیں اور امید ظاہر کی کہ الجولانی اس بات کا احترام کرے گا۔ انہوں نے کہا:
“ہم نہیں چاہتے کہ یہ جگہ دوسرا قندھار بن جائے۔”
دو دن بعد جب الجولانی نے اپنے والدین کے اپارٹمنٹ کو واپس لے لیا، وہ دوبارہ جامع اموی گئے، جہاں وہ اپنی جوانی میں نماز پڑھا کرتے تھے۔ مسجد کے نمازیوں کے مطابق ان کے والد بھی ایک دیندار شخص تھے اور قرآن کریم کے حافظ تھے۔ کئی افراد اب بھی اس نوجوان کے شریف اور شرمیلے رویے کو یاد کرتے ہیں، لیکن ان کے نئے رویے اور مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں امید و بیم کی کیفیت سے دوچار ہیں۔
ایک درمیانی عمر کے شہری ایمن نے بتایا کہ وہ اپنے کتے کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے جب انہوں نے الجولانی، اس کے بھائی ماہر اور چار محافظوں کو اتوار کے روز دیکھا۔ انہوں نے آدھا گھنٹہ بات چیت کی، جس کے بعد الجولانی اپنے اپارٹمنٹ میں چلے گئے۔ ایمن نے مزید بتایا کہ الجولانی ہمسایوں کے بارے میں پوچھ رہا تھا کہ کون اب بھی محلے میں رہتا ہے اور کون چلا گیا۔ ایمن نے یادگار کے طور پر الجولانی اور اس کے بھائی کے ساتھ سیلفیاں بھی لیں۔
ایک اور پڑوسی نے ایک ذاتی مسئلے کا حل پایا، جو اس کے بیٹے کی بیوی کے اصرار پر طلاق کے مطالبے اور قانونی پیچیدگیوں سے متعلق تھا۔ انہوں نے کہا: “میں اس کے بارے میں اس سے پوچھ سکتی ہوں۔ جج بہت زیادہ بدعنوان تھے، لیکن میں “وساطت” نہیں چاہتی” جو ایک عربی لفظ ہے، جس کا مطلب تعلقات کے ذریعے غیر قانونی یا غیر اخلاقی طریقے سے کسی کام کا حل نکالنا ہوتا ہے، اور یہ وہ چیز ہے جس کی شامی عوام نے اکثر بشار الاسد کے دور میں شکایت کی۔ انہوں نے مزید کہا: “میں ایسے نظام کی خواہش نہیں رکھتی جو “وساطت” پر منحصر ہو، حالانکہ الجولانی کا قریب ہونا شاید نئے شام میں بہترین وساطت ہو سکتا ہے۔”
لیکن سب سے زیادہ افسوس شاید سلیمان خاندان کو ہو رہا ہے، جنہوں نے اپنی رہائش گاہ چھوڑ دی۔ عمارت کے چوکیدار نے کہا کہ وہ الجولانی کی درخواست پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے سامان کو دوپہر کے وقت گاڑی میں لوڈ کر کے روانہ ہو گئے۔ اس نے مزید کہا: “اگر یہ الجولانی کے نئے نظام کے بجائے بشار الاسد کا دور ہوتا تو تو وہ انہیں کھڑکی سے باہر پھینک دیتا۔”

Related Posts