پاکستان انجینئرنگ کونسل میں بد عنوانیاں، سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال عام ہوگیا

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان انجینئرنگ کونسل میں بد عنوانیاں، سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال عام ہوگیا
پاکستان انجینئرنگ کونسل میں بد عنوانیاں، سرکاری پیسے کا بے دریغ استعمال عام ہوگیا

اسلام آباد: پاکستان انجینئرنگ کونسل نے اپنی 26ویں سالانہ جنرل میٹنگ یوم قائد اعظم کی سرکاری چھٹی والے دن 25دسمبر کو کراچی میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میٹنگ سہ پہر میں شروع کی جائے اور اسے ڈنر پر ختم کیا جائے گا، اس فیصلے کا سب سے زیادہ فائدہ ان ہوٹلوں کو ہوگا جہاں پر معزز ممبران کونسل مزید ایک رات سرکاری خرچ پر قیام فرمائیں گے۔ اور اس مد میں یہ لاکھوں روپے ضائع ہونگے جو بچائے جا سکتے تھے۔لیکن کچھ افسران کو ان ہوٹلوں سے کمیشن ملے گا۔

کراچی میں کونسل نے کروڑوں روپے خرچ کرکے اپنا دفتر بنایا لیکن یہ دفتر اس قابل نہیں کہ یہاں کونسل اپنے اجلاس منعقد کر سکے تو اس کراچی کے دفتر کا ڈیزائن بنانے والوں اس کی تعمیر پر تمام اخراجات کرنے والے کو کم از کم اکیس توپوں کی سلامی دینی چاہیے۔

کہ دفتر کے لئے زمین خریدنے مین بھی کمیشن کمایا، تعمیر مین بھی کمایا اور اب اس دفتر کے ناقابل استعمال ہونے پر باہر میٹنگوں کے نام پر، کھانے، گاڑیوں، پٹرول، اور ہوٹلوں کے اخراجات کے نام پر جاری نہ ختم ہونے والی لوٹ مار۔مزید تماشہ یہ کہ میٹنگ زوم کے ذریعے آن لائن ہونا قرار پائی ہے۔ اگر زوم کے ذریعے ہی میٹنگ کرنی تھی تو پھر اس میٹنگ کو کراچی کے دفتر میں کرنے میں کیا امر مانع تھا۔

حکومت کی جانب سے اپوزیشن کے جلسوں کے بارے میں یہ راگ الاپا جاتا تھا کہ لوگوں کو اکٹھا کرکے کرونا وائرس مین مبتلا کیا جارہا ہے۔اور اب کونسل بھی یہی کر رہی ہے۔ این ای ڈی یونیورسٹی طلباء کے لئے بند ہے لیکن اب یونیورسٹی کو چھٹی والے دن کونسل کی میٹنگ کے لئے کھولا جارہا ہے۔کونسل کے ممبران اور کونسل کے افسران کے درمیان ایک بھائی چارہ قائم ہے۔

افسران کونسل کے ممبران کے اپنی من پسند منظوریوں اور لائسنس جاری کرنے کے کاموں سے آنکھین بند رکھتے ہیں اور ممبران، افسران کے نت نئے خرچوں بلکہ شاہ خرچیوں سے آنکھین بند کئے رکھتے ہین۔

کمپنیوں اور فیکٹریز کو ہر سال کروڑوں روپے کونسل کو مختلف مدات مین جمع کروانے پڑتے ہین لیکن ان پیسوں کا جمع کروانے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا لیکن کونسل کے افسران یہی پیسہ پوری جانفشانی سے کونسل ممبران کی میٹنگ، کھانون، سفر، رہائش، گاڑیوں پیٹرول مین اڑا کر ان ممبران کو خوش کرتے ہین اور خود بھی موج کرتے ہیں۔

اسی بھائی چارے کی وجہ سے کسی افسر کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہین ہوئی۔ سال پہلے کراچی کے معاملا ت کی انکوائری کے بعد گونگلون سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ایک دو افسران اور چند اہلکاران کو تبدیل کرکے اصل معاملہ دبا دیا گیا کہ کن ممبران کی ایماء پر افسران ایجنٹون کو کھلی چوٹ دینے پر مجبور تھے۔

کراچی کے معاملات میں مرکزی کردار ڈپٹی رجسٹرار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی اور ان کے خلاف شکایات کے انبار ہونے کے باوجود وہ اپنی من مانی کئے جارہے ہیں۔کیونکہ ان کو کرپٹ ممبران کے ایک ٹولے کی شہ حاصل ہے۔ان تمام من مانیوں کے حساب سے بچنے کے لئے کونسل اپنا آڈٹ آڈیٹر جنرل آف پاکستان سے کرانے کو تیار نہیں ہے۔بلکہ اپنے من پسند آڈیٹر سے من پسندآڈٹ کرنے کی ضد پر قائم ہے۔

موجودہ کونسل کے دور کا سب سے سیاہ کارنامہ غیر ملکی ٹھیکیداروں، غیرملکی کمپنیوں اور انجینئرز کو پاکستان مین کام کرنے کے کھلی اجازت دینا ہے۔ صرف اس ایک کام سے ملک کی اپنی کنسٹرکشن انڈسٹری، انجینئرز اور ان سے منسلک اداروں کو کس قد ر نقصان ہوا،اس کا تخمینہ لگانے کے لئے ایک الگ کمیشن بنانے کی ضرورت ہے۔

کونسل کے ممبرا ن سے گزارش ہے کہ اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرتے ہوئے کونسل کو موجودہ دور کے تقاضوں، حکومتی احکامات اور غیر ملکی کمپنیوں کے بجائے پاکستان کے مفاد میں فیصلے کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کے لئے اپنی آواز بلند کریں۔

Related Posts