فوجی عدالت ہو یا سول، دونوں کا کام انصاف کی فراہمی ہے، تاہم میڈیا میں عام شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں منتقل کرنے کے معاملے پر بحث و تمحیص جاری ہے۔
حال ہی میں نگران وزیر اعظم نے نجی ٹی وی چینل کو دئیے گئے انٹرویو میں کہا کہ فوجی عدالتوں کے کیس میں فریق ہونا ثابت کرتا ہے کہ ہم ریاست کے وفادار ہیں۔ اگر فیصلہ آئین و قانون کے مطابق نہ لگتا ہو تو اپیل کرنا ہمارا فرض ہوگا۔
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ جن لوگوں نے دفاعی تنصیبات پر حملے کیے، ان کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونا چاہئے، ریاستی اداروں پر کسی سیاسی وجہ سے حملہ کیاجائے تو نظر انداز نہیں ہوسکتا۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والے یہ غلط فہمی دور کرلیں کہ سزا نہیں ہوگی۔ 9 مئی سیاسی عمل نہیں بلکہ جلاؤ گھیراؤ اور انارکی کے زمرے میں شامل ہے۔ اداروں پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونا چاہئے۔
یہاں اہم ترین سوال یہ ہے کہ ٹرائل کیا ہوتا ہے؟ مجرم اور ملزم میں فرق کیا ہے؟ تو مجرم وہ جس پر جرم ثابت ہوچکا ہو اور ملزم وہ جس پر الزام لگایا جائے یعنی پولیس یا حکومتی اہلکار یا مدعی کہے کہ فلاں چور یا ڈاکو یا پھر قاتل ہے۔
کسی کے کہنے سے ملزم مجرم نہیں ہوجائے گا بلکہ قانونی عمل کے ذریعے یہ ثابت بھی کرنا ہوگا کہ واقعی وہ جرم ملزم سے ہوا ہے اور اگر عدالت فردِ جرم عائد کرے یا سزا سنائے، تبھی ملزم کو مجرم کہا اور تسلیم کیا جائے گا۔
دوسری جانب ٹرائل یعنی مقدمہ ہمیشہ ملزم کا ہوتا ہے، مجرم کا نہیں، کیونکہ جب جرم ثابت ہوگیا تو ٹرائل کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا اور جب ٹرائل کے دوران ہی کسی کو مجرم کہہ دیا گیا تو یہ مراد لیا جاتا ہے کہ ملزم کا استحقاق مجروح ہوا ہے۔
تکلیف دہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایک جانب عدالت کسی شخص کی ضمانت منظور کرلیتی ہے تو دوسری جانب پولیس، ایف آئی اے یا دیگر قانون نافذ کرنے والا ادارہ اس شخص کو دوبارہ کسی اور کیس میں گرفتار کر لیتا ہے اور عدالت کچھ نہیں کرسکتی۔
اگر یہاں ایک سول عدالت کا یہ حال ہے تو فوجی عدالت میں ملزم کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ اس پر سوالات اٹھائے جاسکتے ہیں۔ ریاست کے ستونوں میں عدلیہ، مقننہ اور عسکری حکام کو اہمیت دی جاتی ہے تاہم صحافت کو بھی ریاست کا چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ریاست کے ستون ہی گزشتہ 76سالوں سے آپس میں گتھم گتھا ہیں اور عوام یہ سمجھنے سے ہی قاصر ہیں کہ حق پر کون سا ستون ہے اور کون سا باطل پر؟ کسے رہنمائی، کسے تعریف اور کسے جزا و سزا کی ضرورت ہے؟
مثال کے طور پر پاکستان کی عنانِ اقتدار بظاہر سیاستدانوں اور ایک طویل عرصے تک ظاہری اور اس سے بھی زیادہ طویل عرصے تک خفیہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں رہی ہے جس کی سرکردگی عسکری حکام کرتے ہیں۔
اسٹیبلشمنٹ کا کام حکومت کرنا نہیں تھا لیکن ملک پر 40سال سے زائد عرصے تک ملٹری کی ہی حکومت رہی ہے اور سابق آرمی چیف ہی یا تو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے یا پھر چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کا لقب اختیار کرکے ملکی سیاہ و سفید کے مالک رہے۔
دوسری جانب سیاست دانوں کا کام قانون سازی تھا اور عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کو انجام تک پہنچانا، لیکن سپریم کورٹ نے سوموٹو پر سوموٹو لیتے ہوئے انتظامی کاموں میں مداخلت شروع کردی اور سیاستدان تو 76سالوں سے عدلیہ پر اثر انداز ہوتے چلے آرہے ہیں۔
ایسے میں جب یہ سوال کیا جائے کہ کیا مقدمہ سول عدالت میں چلنا چاہئے یا فوجی عدالت میں؟ تو دراصل سوال بنیادی انسانی حقوق کا ہوتا ہے۔ عوام کو پاک فوج پر جتنا بھروسہ ہے، اتنا ہی فوجی عدالتوں پر بھی ہونا چاہئے تاہم دلچسپ سوال یہ ہے کہ فوجی عدالتوں پر ہی اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے؟ کیا سول عدالتوں کے وجود کا کوئی مقصد بھی باقی ہے یا نہیں؟