مغربی اتحاد کا مسئلہ صرف یہ نہیں کہ یہ اپنی فوجی طاقت بہت کم کرچکے اور اس کا اب انہیں خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے بلکہ انہیں عسکری ذہن کے بحران کا بھی سامنا ہے۔ ان کی موجودہ چین آف کمانڈ میں ٹاپ سے لے کر نیچے تک ایک بھی ایسا کمانڈر نہیں جس نے کوئی بڑی جنگ لڑی ہو۔ ان میں سے امریکی فوج نے آخری بڑی جنگ ویتنام میں لڑی ہے۔ اس کے موجودہ فور اور تھری اسٹار جنرلز وہ ہیں جو 1984ء اور اس کے بعد بھرتی ہوئے ہیں۔ مستقبل میں کسی بڑے دشمن کے امکان سے بے خوف ہونے کے بعد انہوں صرف فوج ہی کم نہ کی بلکہ ان کی عسکری ذہنی استعداد بھی کمپرومائز ہوگئی۔
اس کا نتیجہ ہم یوکرین میں دیکھ رہے ہیں۔ جنگ کے آغاز پر یوکرین یورپ کی سب سے بڑی فوجی طاقت تھا اور اس کی اس فوج کو جدید تر بنانے کے لئے 2014ء سے نیٹو نے دن رات لگائے تھے۔ اسلحے کا بھی ڈھیر لگا کر دیدیا تھا۔ گولہ بارود اتنا فراہم کیا تھا کہ یوکرین ایک دن میں 65 ہزار گولے فائر کر رہا تھا۔ جانتے ہیں خلیج کی پہلی پوری جنگ میں امریکی توپ خانے اور ٹینکوں نے کل کتنے گولے فائر کئے تھے؟ صرف ساٹھ ہزار۔ جو عدد امریکہ نےخلیج کی پوری جنگ میں فائر کیا تھا وہ یوکرین ایک دن میں فائر کر رہا تھا اور یہ بھی واضح تھا کہ اس کی جانب سے جنگ کی اصل کمانڈ امریکی جرنیلوں کے پاس ہے۔
گویا اس جنگ نے ہمیں یہ بھی بتانا تھا کہ نیٹو کس لیول کا عسکری ذہن رکھتا ہے۔ جنگوں کے لئے صرف گولہ بارود اور سپاہ نہیں بلکہ اعلی درجے کا عسکری ذہن رکھنے والے کمانڈر بھی درکار ہوتے ہیں۔ ایسے کمانڈر جو اپنی حیران کن حکمت عملی سے دشمن کے اوسان خطا کردیں۔ اگر کمانڈر ذہین ہو تو وہ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو خاک چٹا سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر سے یوکرین کی جنگ میں سرے سے یہ لگتا ہی نہیں کہ روس کو کسی کمانڈر کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ گلی کے لونڈے ہیں جو قطار در قطار روسی فوج کے ہاتھوں مرنے آرہے ہیں۔ صرف بخموت میں وار آف اٹریشن کی حکمت عملی سے روس نے 6 ماہ میں ان کے 75 ہزار فوجی مار دیے اور انہیں اتنی عقل بھی نہ تھی کہ پسپا ہوجائیں۔
سو مشرق وسطیٰ کی ممکنہ بڑی جنگ کے لئے امریکہ دوسری جنگ عظیم کے کسی کمانڈر کی قبر سے اس کا دماغ لانے سے تو رہا۔ مشرق وسطیٰ میں بھی اسی دماغی صلاحیت نے آنا ہے جس کی “اہلیت” ہم یوکرین میں دیکھ چکے اور یوکرین ہی کیا ہم مشرق وسطیٰ کی اسی جاری صورتحال میں ایک تاریخ ساز واقعہ دیکھ چکے۔ ہم “تاریخ ساز” لفظ محض روانی میں نہیں برت رہے۔ سوچ سمجھ کر پوری ذمہ داری سے اس کا استعمال کر رہے ہیں۔ شرمناک بات دیکھئے کہ اس اتنے بڑے واقعے سے ہمارے ہاں کوئی سرے سے واقف ہی نہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ جب یمنی پراکسی نے بحیرہ احمر میں اسرائیل جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو امریکی وزیر دفاع لوئیڈ آسٹن پنٹاگون کے روسٹرم پر آئے اور اعلان کیا کہ ہم بحیرہ احمر کو محفوظ تجارتی گزرگاہ بنانے کے لئے نیول ٹاسک فورس بنا رہے ہیں۔ یہ نیول فورس قائم ہونی شروع ہوئی تو پہلے ہی قدم پر پہلے ہاں اور پھر ناں کرکے فرانس، اٹلی اور اسپین اس سے بھاگ نکلے۔ مگر یہ نیول فورس قائم ہوگئی اور اس میں امریکہ کی معاونت کے لئے برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک، فن لینڈ، یونان، نیدرلینڈ، ناروے، سنگاپور، بحرین اور سری لنکا نے حصہ ڈالا اور یہ فورس حسب روایت ایک پرکشش ٹائٹل “آپریشن پراسپیرٹی گارڈین” کے ساتھ بحیرہ احمر پہنچ گئی۔ مگر ہوا کیا؟
دو چار دن میڈیا میں خوب دھواں دھار خبریں چلیں کہ یمن میں فلاں فلاں ٹھکانے تہس نہس کر دیئے گئے لیکن جب یمنی پراکسی کا جوابی وار شروع ہوا تو ان کے اوسان ہی خطا ہوگئے۔ بات تھی بھی اوسان خطا کرنے والی۔ اس فورس نے پہلی بار یہ منظر دیکھا کہ ان کا ایک نیول وار شپ ان کی نظروں کے سامنے تباہ ہوگیا۔ یہ برطانوی بحری جہاز تھا۔ وہ دن ہے یہ دن ہے پھر کسی نے اس ٹاسک فورس کو بحیرہ احمر میں نہیں دیکھا۔ یہ جدید ملٹری تاریخ کا منفرد واقعہ ہے کہ کسی ملک نے نہیں بلکہ ایک عسکری تنظیم نے بارہ ممالک کی نیول فورس کو کھلے سمندر میں شکست سے دوچار کرکے فرار پر مجبور کیا ہے۔ مغرب کے جنگ مخالف عسکری دانشوروں کا آج کل من پسند مشغلہ ہی یہ ہے کہ روز اس ٹاسک فورس سے متعلق پوچھتے ہیں:
“بھئی کوئی اتنا تو بتا دے کہ آپریشن پراسپیرٹی گارڈین والے نیول شپس بحفاظت اپنے ممالک پہنچے یا راستے میں ہی کہیں شرم سے ڈوب گئے؟”
اب آپ ہی انصاف سے بتایئے جو نیول فورس صرف حوثیوں کے آگے سے دم دبا کر بھاگ گئی وہ ایران کے اینٹی شپ ہائپرسونک میزائلوں کا سامنا کرسکتی ہے؟ یہ صرف دنیا بھر کا عام آدمی ہے جو ان نیول فورسز سے مرعوب ہوتا ہے۔ ورنہ عسکری شعبے سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ امریکہ سمیت پورا مغربی اتحاد جن ایئرکرافٹ کیئریئرز اور نیول شپس سے ڈاکومنٹریز کی مدد سے ڈراوے دیتا ہے یہ سب پچاس سے ساٹھ سال پرانی ٹیکنالوجی ہے جو عہد حاضر میں شوپیسز سے زیادہ کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ امریکہ کے کسی بھی ایئرکرافٹ کیریئر کو ڈبونے کے لئے صرف ایک عدد رشین 3ایم 22 زرکون یا چائنیز ڈی ایف 21 میزائل کافی ہے۔ یہ دونوں ہی ہائپر سونک میزائل ہیں جو آواز سے دس گنا رفتار سے ہدف کی جانب لپکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان کا توڑ فی الحال کسی کے پاس بھی نہیں۔
اور مسئلہ فقط یہ نہیں کہ ہائپرسونک ٹیکنالوجی صرف روس اور چین کے پاس ہی ہے۔ اپریل میں ایران کے جن تین میزائلوں نے اسرائیل میں اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا وہ ہائپرسونک ہی تھے۔ چنانچہ دنیا بھر کے عسکری ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ چھڑی اور امریکہ نے اس میں خود کو صرف اسرائیل کے دفاع تک محدود رکھنے کے بجائے ایران پر حملوں میں بھی حصہ لیا تو ہم تاریخ میں پہلی بار ایئرکرافٹ کیریئر غرق ہوتے دیکھیں گے۔ ان ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف ایئرکرافٹ کیریئر کا غرق ہونا نہ ہوگا بلکہ زوال پذیر امریکہ کے عالمی اثر و رسوخ کے خاتمے کا بھی اعلان ہوگا۔
بات صرف نیول ٹارگٹس تک بھی نہیں رہنی۔ امریکہ کے لئے ایک بڑا درد سر وہ فوجی اڈے بھی ہوں گے جو اس نے دنیا بھر میں پھیلا رکھے ہیں، اور ان میں سے بہت سے مشرق وسطیٰ میں ہی ہیں۔ یہ تمام اڈے ایران اور اس کی پراکسیز کا ہدف ہوں گے۔ اطلاع ہے کہ ایران قطر کو بیک ڈور سے بتا چکا کہ اگر امریکہ اس کے خلاف حملوں میں شامل ہوا تو اس کا قطر والا بڑا ملٹری بیس بھی ایران کا ہدف ہوگا۔ جس کا مطلب یہ نہ لیا جائے کہ قطر ہمارا ہدف ہے۔ صرف امریکی بیس ہدف ہوگا۔
یہ تو ہوا وہ عسکری نکتہ جس کے تحت امریکہ اور اس کے اتحادی ایران پر حملے میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ایسا کرنے کے لئے حماقت کے جس لیول کا ہونا ضروری ہے وہ شاید ابھی دستیاب نہ ہو۔ مگر بات بس اتنی سی ہی نہیں۔ یہ جنگ چھڑتے ہی ایران آبنائے ہرمز والا ٹرمپ کارڈ کھیل دے گا۔ دنیا کا پینتیس فیصد تیل یہیں سے گزرتا ہے۔ ذرا غور کیجئے، بحیرہ احمر پر حوثیوں کا ناقابل چیلنج کنٹرول قائم ہے۔ آبنائے ہرمز بھی بند ہوگئی تو بحران صرف تیل کا ہی نہ ہوگا بلکہ ایشیا اور مغرب ایک دوسرے سے کٹ جائیں گے۔ سو جنگ کا آغاز ہوتے ہی دنیا بھر میں صرف تیل کی قیمتیں ہی ناقابل خرید سطح تک نہیں پہنچیں گی بلکہ ان ممالک کو تو سرے سے تیل دستیاب ہی نہ ہوگا جو خلیجی ممالک سے تیل خریدتے ہیں۔ پوری دنیا کی معیشتیں زمیں بوس ہوجائیں گی۔ گویا جو ممالک اس جنگ میں شریک نہ بھی ہوں گے وہاں فاقوں سے ہی ناقابل تصور تعداد میں اموات ہوں گی۔ جب تیل نہیں ہوگا تو مشین کیسے چلے گی؟ جب مشین نہ چلے گی تو تنخواہ کہاں سے آئے گی؟ جب تنخواہ نہ ہوگی تو روٹی کیسے خریدی جائے گی؟ سو یہ جو بعض لوگ حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر یہ سوال اٹھاتے رہے ہیں “بھئی سنا تھا ایران نے کوئی انتقام لیناتھا۔ کیا بنا اس کا؟” انہیں شعور ہی نہیں کہ یہ کس چیز کی آرزو کر رہے ہیں؟
مشرق وسطیٰ کی اس ممکنہ جنگ کے نتیجے میں جو معیشتیں تباہ ہوں گی۔ ان میں سب سے برا حشر یورپ کا ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ یوکرین کی جنگ کے دوران مغرب نے روس پر جو پابندیاں لگائی تھیں اس کے نتیجے میں روس کی معیشت نے تو ناقابل یقین حد تک ترقی حاصل کرلی ہے لیکن یورپ کا بیڑا غرق ہوچکا۔ کسی نے سوچا تھا کہ ہماری طرح یورپ میں بھی لوڈ شیڈنگ ہوگی؟ جس جرمنی کو یورپین یونین کا معاشی انجن کہا جاتا ہے وہ ڈی انڈسٹرلائزیشن سے دو چار ہوگا؟ یہ دو ہم نے محض اشارے دیئے ہیں، یورپ کی معاشی صورتحال کو آپ خود گوگل کی مدد سے دیکھ لیجئے۔ ان کی بڑی بڑی باتوں پر مت جایئے، ان کی ڈینگیں جلی ہوئی رسی کے بل کے سوا کچھ نہیں۔
آخری بات ہم یہ کہہ کر اس کالم کو ختم کرتے ہیں کہ اس ماڈرن دور میں جنگ اور اس کے ہتھیار یکسر بدل چکے۔ ایک زمانہ تھا کہ ٹینک اپنے سامنے آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتے چلے جاتے۔ یہ تبدیلی عین ہماری نظروں کے سامنے صرف پچھلے دو سالوں میں رونما ہوگئی کہ ٹینک کا وہ دور بھی لد گیا جب جنگوں کے فیصلے اسی کی برتری سے ہوتے۔ اب ملینز ڈالرز کا ٹینک صرف پانچ ہزار ڈالر قیمت رکھنے والے چھوٹے ڈرونز سے خدا کی پناہ مانگتا ہے اور جھاڑی کی اوٹ سے تب ہی برآمد ہوپاتا ہے جب اسے یقین دلا دیا جائے کہ فضا میں کوئی ڈرون موجود نہیں۔
خدا کی شان دیکھئے، ٹینکوں کی بے تاج بادشاہت کے خاتمے کے مناظر لکھے بھی دنیا کے تین مشہور ٹینکوں کی قسمت میں گئے۔ وہ ٹینک جن کی عظمت کے گن گئے جاتے تھے، ان میں پہلے نمبر پر امریکہ کا ایم ون ایبرم تھا۔ دوسرے نمبر پر جرمنی کے لیوپرڈ کا طوطی بولتا تھا، جبکہ تیسرے نمبر پر برطانیہ کا چیلنجر تھا۔ یہ سب اب ماسکو کی ایک سر راہ عوامی نمائش میں عبرت کا سامان بن کر پڑے ہیں اور میدان جنگ پر ڈرون و میزائل کا راج چل رہا ہے۔
روس، چین اور ایران تینوں نے اس کا بروقت ادراک کرلیا تھا۔ سو ان ممالک نے میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ آئے دن نت نئے آئٹم یوں لانچ کرتے ہیں جیسے گارمنٹس کے ڈیزائن لانچ کر رہے ہوں۔ بالخصوص ایران نے تو سارا انحصار ہی میزائل پروگرام پر کر رکھاہے۔ اس کے میزائلوں کی اصل تعداد کا کوئی تخمینہ تک نہیں لگا پا رہا۔ مگر یہ بات دنیا بھر کے عسکری حلقوں میں مسلم ہے کہ اس شعبے میں اس نے خود کو اتنا مضبوط کیا ہے کہ یہ کسی ایٹمی وارہیڈ کے بغیر بھی اسرائیل کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتا ہے۔
شنید ہے کہ ایران نے اپنی میزائل فورس اس انداز سے ترتیب دی ہے کہ اس کا ہر یونٹ مواصلاتی نظام منقطع ہونے کی صورتحال میں بھی جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اور اس کا ہدف کیا ہے؟ سو مواصلاتی رابطہ منقطع ہونے سے کمانڈ اینڈ کنٹرول کا بحران پیدا نہیں ہوگا۔ ہر یونٹ واقف ہے کہ ایسی صورتحال میں اس کے اہداف کیا ہیں اور اسے کیا کرنا ہے۔ گویا اس کی راکٹ فورس کی ہر یونٹ کے اہداف ایک دوسرے سے الگ اور پہلے سے طے شدہ ہیں۔
یہ خیال عین فطری ہے کہ ترقی کی معراج پر بیٹھا مغرب عسکری ترقی میں اچانک بہت پیچھے کیسے رہ گیا؟ تو حضور ایسا ہے کہ انہیں وار آن ٹیرر لے بیٹھی۔ یہ افغانستان اور عراق میں الجھے رہے اور عین اسی پیریڈ میں انہیں 2008ء کے مالیاتی بحران نے بھی آگھیرا، یوں ان کی بچی کھچی توجہ بھی اسی سے نکلنے کی جانب منتقل ہوگئی، جبکہ عین یہی وہ موقع تھا جب روس ایک بار پھر اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا اور چین بھی ایک بڑی طاقت کے طور پر امریکہ کے روبرو آگیا۔ آپ نے نوٹ نہیں کیا کہ اس ممکنہ جنگ کی روک تھام کے لئے روس اور چین کوئی بھاگ دوڑ نہیں کر رہے؟ کیوں؟ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اولاً تو امریکہ مشرق وسطیٰ کی اس جنگ میں کودنے کی غلطی ہی نہیں کرے گا، کیونکہ یہ اس کی عالمی اجارہ داری کا خاتمہ کرسکتی ہے اور اگر کود بھی گیا تو یہ جنگ مغرب کی بچی کھچی بالادستی کا بھی خاتمہ کردے گی۔
وہ بالا دستی جو پہلے ہی اس شرمناک مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اب امریکی صدر فون کرتا ہے تو عرب شہزادے کال ہی اٹینڈ نہیں کرتے۔ امریکی وزیر خارجہ دورے پر آجائے تو اسے ملاقات کے لئے چودہ چودہ گھنٹے کا انتظار کرایا جاتا ہے۔ کسی نے تصور بھی کیا تھا کہ ایسے دن بھی اتنی جلد آجائیں گے؟
(ختم شد)