سب کا مینڈیٹ تسلیم کرنا ہوگا

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

انتخابی عمل کی تکمیل کے بعد حکومت سازی کیلئے جوڑ توڑ اور کوششیں کرنا اسمبلیوں میں نمائندگی رکھنے والی ہر سیاسی جماعت کا حق ہے، اس حوالے سے آئین، قانون، اخلاقیات اور جمہوری اقدار و روایات کے دائرے میں کسی طرح کی بھی کوشش کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔

تاہم بد قسمتی سے الیکشن کے دوران اور اس کے بعد حکومت سازی کے مرحلے میں ہر اصول اور اخلاقی قدر کو بری طرح پامال کیے جانے کا افسوسناک طرز عمل رواج پڑ چکا ہے، جو اس بار بھی پورے روایتی طمطراق کے ساتھ سامنے آیا۔

روایت یہ ہے کہ اول الیکشن کے دوران جیتنے کیلئے دھونس دھاندلی کے حربے اختیار کیے جاتے ہیں، پھر ووٹنگ کے بعد نتائج میں ہر ممکن ہیراپھیری کے ذریعے مقصد برآری کی کوشش کی جاتی ہے اور آخر میں حکومت سازی کے دوران منتخب نمائندوں کی منڈیاں لگانے اور خرید و فروخت کا انتہائی گھناونا عمل شروع ہوجاتا ہے، جس کی کسی قانون میں گنجائش ہے اور نہ ہی یہ ہماری دینی اخلاقیات، تعلیمات اور سماجی اقدار سے مطابقت رکھتا ہے۔

اس بار ووٹنگ کا عمل اگرچہ بہت حد تک فیئر اور شفاف رہا، مگر پولنگ کے بعد جو صورتحال بنی اس نے بڑے تنازعات کو جنم دیا ہے، چنانچہ اب ہر سیاسی جماعت دھاندلی اور نتائج میں ہیرا پھیری کے الزامات عائد کر رہی ہے۔

سندھ میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کی حیثیت سے سامنے آئی ہے، تاہم اندرون سندھ نو حلقے ایسے ہیں، جن میں جے یو آئی ایف کو یقین ہے کہ پولنگ میں وہ جیت چکی ہے مگر پولنگ کے بعد الیکشن افسران کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر غیر مجاز عمل کے ذریعے نتائج تبدیل کر دیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کی جانب سے بھی نتائج تبدیل کیے جانے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، نیز اب ایک معلق پارلیمان سامنے آنے کے بعد حکومت سازی کیلئے جو جوڑ توڑ شروع کر دی گئی ہے اور یہ سب مل کر بد قسمتی سے ملک میں عدم استحکام کا ہی نقشہ ترتیب دے رہے ہیں، جو بڑا المیہ ہے۔

ن لیگ بڑی جماعت کی حیثیت سے اس جوڑ توڑ میں قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے، چنانچہ پی پی، ایم کیو ایم، باپ اور استحکام پاکستان پارٹی نے مل کر حکومت سازی میں ن لیگ کو سپورٹ کرنے کا اعلان کیا ہے، جس سے یہ تقریبا طے ہوگیا ہے کہ اگلی حکومت کی فرنٹ سیٹ پر ن لیگ ہوگی۔

اس کے علاوہ پنجاب میں ن لیگ، سندھ میں حسب روایت پیپلز پارٹی اور کے پی کے میں تحریک انصاف کے حامی آزاد ارکان واضح پوزیشن لیے ہوئے ہیں، مگر اس کے باوجود ماحول خاصا غیر یقینی سے اٹا ہوا ہے، ایسا لگ رہا ہے کہ بادلوں میں کوئی طوفان چھپا ہوا ہے۔

یہ تمام تر صورتحال اس بات کی متقاضی ہے کہ معاملات خوش اسلوبی سے نمٹائے جائیں، کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہونے پائے، جس کا جو مینڈیٹ بنتا ہے، اسے دے دیا جائے، یہ ملک کے مستقبل کا سوال ہے۔
یہ بات واضح ہے اور کسی بھی شک و شبہے سے بالاتر ہے کہ سب جماعتیں اور تمام ہی سیاسی رہنما پاکستانی اور مسلمان ہیں، ان میں سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں، ماضی میں کوتاہیاں اور غلطیاں بھی سبھی سے ہوئی ہوں گی، مگر سیاسی اختلاف کو بنیاد بنا کر خلیج کو بڑھاوا دینا ملک کیلئے کسی صورت نیک شگون نہیں ہے۔

ملک کو اس وقت سیاسی و معاشی استحکام کی جس قدر ضرورت ہے، شاید ہی اس سے پہلے ایسے نازک اور مشکل حالات رہے ہوں۔ حکومت سازی کا یہ مرحلہ موقع ہے کہ تمام سیاسی قوتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کریں، سب سے پہلے ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کریں، جس کو جہاں بھی جس سے متعلق کوئی شکایت ہو، وہ خود آگے بڑھ کر شکایت کنندہ کا مسئلہ سلجھانے کی کوشش کرے، یہ مشکل امر ہے مگر ملکی مفاد مقدم ہو اور ذاتی مفادات ہی اول و آخر ترجیح نہ ہوں تو کوئی مشکل بھی مشکل نہیں۔

یہ وقت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں اور مقتدرہ وسعت ظرفی کا مظاہرہ کریں اور ملکی مفاد کو ہی پیش نظر رکھ کر حکومت سازی سمیت دیگر معاملات حل کرنے کی طرف قدم بڑھائیں۔ انا کی جنگ اور ہر حال میں اپنا مفاد مقدم رکھنے کی صورت میں ملک شدید عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے۔

Related Posts