گہری جڑیں رکھنے والی مسلم لیگ (ن) کو اپنی گہری جڑوں کا ایک فائدہ یہ حاصل ہے کہ مین اسٹریم میڈیا میں ایسے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جن کی وابستگی اس جماعت سے ہے۔ جس طرح سیاسی جماعتوں کے کوئی روحانی ایجنڈے نہیں ہوتے بلکہ یہ خالص دنیوی امور کے لئے ہوتی ہیں۔ بعینہ اس کے وابستگان کی وابستگی بھی اللہ کی رضا کے لئے نہیں بلکہ دنیوی مفادات کے لئے ہوتی ہے۔
دنیوی مفادات کوئی بری چیز نہیں۔ ایک شہری جب یہ سوچ کر ن لیگ کو ووٹ دیتا ہے کہ ان دور حکومت میں معیشت بہتر ہوگی جس سے ہمارے روزگار کے معاملات بھی بہتر ہوجائیں گے تو یہ بھی ایک دنیوی مفاد ہی ہے، لیکن عین فطری اور عین جائز مفاد ہے۔ دنیوی مفاد معیوب تب بنتا ہے جب یہ دو میں سے کوئی ایک شکل اختیار کر جائے۔
پہلا یہ کہ یہ مفاد کسی دینی تقاضے سے متصادم ہونے کے باوجود ترجیح حاصل کر جائے۔ اور دوسرا یہ کہ یہ مفاد اپنے جائز حق سے زیادہ اینٹھ لیا جائے۔ ظاہر ہے اس کے لئے چاپلوسی سے لے کر رشوت تک ہر طرح کے ناجائز حربے آزمائے جاتے ہیں۔ سو ن لیگ سے وابستہ یا اسے ووٹ دینے والے صحافیوں میں بھی یہ دونوں ہی طرح کے افراد شامل ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کو بھی مین سٹریم میڈیا سے ایسے لوگ میسر ہیں ؟ آج کے کالم میں یہ سوال اس لئے کھڑاکیا جا رہا ہے کہ سیاسی موسم بدل چکا۔ گرم ہواؤں نے پی ٹی آئی کی خیمہ گاہ کا رخ کرلیا ہے۔ باوجودیکہ ہمارے ہاں ایسے اخبارات اور ٹی وی چینلز موجود ہیں جن پر انصافی ہونے کا لیبل موجود ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ اخبارات اور چینلز عمران خان یا تحریک انصاف سے ہی وابستگی رکھتے ہیں؟
رعایت اللہ فاروقی کے مزید کالمز پڑھیں:
وارننگ کو دعوت نامہ سمجھنے والے