بااثر مافیا نے HEC کی ویب سائٹ سے بلیک لسٹڈ سرقہ نویسیوں کی فہرست اڑا دی

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایچ ای سی نے سرقہ نویسی میں ملوث افراد کی اپنی جاری کردہ فہرست ویب سائٹ سے اُڑادی
ایچ ای سی نے سرقہ نویسی میں ملوث افراد کی اپنی جاری کردہ فہرست ویب سائٹ سے اُڑادی

کراچی: ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سرقہ نویسی میں ملوث افراد کی اپنی جاری کردہ فہرست ویب سائٹ سے غائب کر دی۔فہرست میں اعلیٰ عہدوں پر فائزکئی بااثر افراد کے نام شامل تھے۔ جن میں ایک سابق وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر کا نام بھی شامل تھا جو کہ ہائیر ایجوکیش کمیشن کا ممبر بھی رہا ہے۔

ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے 2016 میں اپنی ویب سائٹ پر سرقہ نویسی میں ملوث افراد کی ایک فہرست جاری کی تھی۔ مذکورہ فہرست میں 8 افراد ایسے تھے جن کے مقالات میں 40 سے 50 فیصد تک سرقہ نویسی ثابت ہوئی تھی۔ سرقہ نویسی کی یہ تحقیقات ہائر ایجوکشن کمیشن کی کمیٹی برائے انسداد سرقہ نویسی نے ثابت کی تھی جس کے بعد ملوث افراد کی فہرست جاری گئی تھی۔

اس فہرست کے مطابق ذیبسٹ یونیورسٹی کے شعبہ کمپیوٹر سائنس کے محمد نعیم نے ایک پرچہ اسٹڈی آف پاکستان الیکشن سسٹم ایز انٹیلی جنٹ ای الیکشن یورپی یونین الیکشن ابزویشن مشین یعنی پاکستان نیشنل پرونشل اسمبلی الیکشن کی رپورٹ کو ہو بہو نقل کیا تھا۔ جس پر مذکورہ شخص کو ایچ ای سی نے بلیک لسٹ کر کے فہرست میں شامل کیا۔

اسی طرح سند ھ یونیورسٹی کے شعبہ فریش واٹر بیالوجی اینڈ فشریز کے غلام عباس سہتو  اور کے ایچ لاشاری نے چوری شدہ الگ الگ مقالات اپنے اپنے نام سے چھاپ کر 100فیصد سرقہ نویسی کی تھی جس کی بنیا د پر دونوں کو بلیک لسٹ کیا گیا۔

مذکورہ فہرست میں بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی کے جہانزیب حیدر اور اکبر علی کے نام بھی شامل ہیں،جنہوں نے عرفان اللہ نامی ایک محقق کی رپورٹ چوری کی اور بعد ازاں اپنے نام سے شائع کی۔

اس طرح کیپٹل یونیوسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ناصرحسین اور عمیر انیس نے اپنے ایک طالبعلم کے ایم ایس کا مقالہ چرا کر اپنے نام پر ایک پرچہ شائع کیا جس کی بعد ازاں تحقیقات کی گئی تو الزام درست ثابت ہوا اور مذکورہ دونوں افراد کو بلیک لسٹ کیا گیا۔

جبکہ ہری پوریونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور موجودہ پاک آسٹریا یونیورسٹی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ناصر خان کا نام بھی شامل ہے۔ ناصر خان نے اپنے پی ایچ ڈی مقالے میں مختلف ذرائع سے مواد چوری کیا۔ جس پر ایچ ای سی کی اسٹینڈنگ کمیٹی فار پلیجرازم نے تحقیقات کی اور ناصر خان کی پی ایچ ڈی کو پشاور یونیورسٹی سے منسوخ کرنے کی سفارش بھی کی۔ اس کے ساتھ ساتھ ناصر خان کو بلیک لسٹ بھی کیا گیا۔ ان بلیک لسٹڈ افراد کی مکمل فہرست ایچ ای سی کی ویب سائٹ پر دسمبر 2021 تک موجود تھی۔

تاہم مذکورہ فہرست کی ایچ ای سی کے ویب سائٹ سے غائب ہونے کا انکشاف اس وقت ہوا جب موجودہ ایچ ای سی چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنا عہدہ دوبارہ سنبھالا۔ حیران کن طورپر ہری پور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور پاک آسٹریا یونیورسٹی کے موجودہ پروجیکٹ ڈائریکٹر ناصر خان جو کہ سرقہ نویسی میں ملوث تھے اور وہ ایچ ای سی کی بلیک لسٹڈ افراد میں بھی شامل تھے، ان کو کمیشن کا ممبر بھی بنایا گیا تھا۔ تاہم ڈاکٹر طارق بنوری نے ناصر خان کی ایچ ای سی کی ممبر شپ ختم کر دی لیکن بعد ازاں معلوم ہوا کہ مذکورہ لسٹ بھی ایچ ای سی کی ویب سائٹ سے غائب کر دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں: شہید اللہ بخش سومرو یونیورسٹی کے VC کیخلاف NAB تحقیقات کے بعد توہین عدالت کی کارروائی شروع

اس لسٹ میں زیبسٹ کے محمد ندیم جامعہ سندھ جامشورو سے جی اے سہتو اور کے ایچ لاشاری بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سے جہانزیب حیدر اور اکبر علی کیپیٹل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اسلام آباد سے ناصر حسین اور عمیر انیس اور جامعہ پشاور سے ناصر علی خان شامل ہیں۔

Related Posts