ترکیہ اور شام میں تاریخ کے بد ترین زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ شام اس تباہی سے نمٹنے کیلئےاقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کی عالمی سطح پر عائد پابندیوں سے دامن جھاڑ کر اپنا پیچھا چھڑا نہیں سکتا بلکہ ان پابندیوں کے باعث اس ملک کو بے شمار مشکلات کا سامنا ہے۔ البتہ شام ان دو طرفہ پابندیوں سے دامن بچا سکتا ہے جو امریکا نے اس پر عائد کررکھی ہیں۔ شام کے لاکھوں پناہ گزین بھی دیگر ممالک بشمول ترکیہ میں موجود ہیں جو زلزلے سے بری طرح متاثر ہوئے۔
پاکستان میں بھی 2005 میں ایک بڑا زلزلہ آیا جس سے ہمارا بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا تاہم ترکیہ میں جو زلزلہ آیا ہے اس کی شدت ہمارے مقابلے میں زیادہ ہے۔ ترکیہ زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہونے کے باعث بد ترین زلزلے کا شکار ہوا۔ تاہم اس سلسلے میں اہم بات یہ بھی ہے کہ ترکیہ جیسے ترقی یافتہ اور مُقابَلَتاً مضبوط معاشی صورتحال رکھنے والے ملک میں عمارات کی تعمیر اگر زلزلے سے محفوظ رکھنے کے نقطہ نظر سے کی جاتی تو اتنے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کبھی نہ ہوتا۔
زلزلے کے اوقات میں ترکیہ سے دل دہلا دینے والی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جنہیں دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ زلزلے کے دوران کثیر المنزلہ عمارتیں ریت کی دیوار کی طرح ایک کے بعد ایک کرکے زمیں بوس ہوتی گئیں اور عوام ان کے ملبے سے بچنے کیلئے ایک مقام سے دوسرے مقام تک بھاگتے نظر آئے تاہم وہ لوگ جو ایسی عمارات میں موجود تھے، ان میں سے ہزاروں آج بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں جنہیں نکالنے کیلئے ریسکیو کی کارروائیاں جاری ہیں۔
ہمارا ملک پاکستان بھی فالٹ لائن پر بھی واقع ہے اور عمارات کو زلزلے سے محفوظ بنانے کیلئے ہمیں ترکیہ سے بھی زیادہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2005 میں جب پاکستان میں زلزلہ آیا اور یہاں گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹ گئے تو اس وقت سب سے پہلے پاکستان کی مدد کیلئے ترکیہ کے ریسکیو اہلکار آگے آگے تھے اور انہوں نے جان کی قربانیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ پاکستان اور ترکیہ دونوں کی جانب سے ایک دوسرے کے ہاں زلزلے کے موقعے پر ٹنوں امدادی سامان طیاروں میں لاد کر بھیجا گیا۔
جب بھی کوئی آسمانی آفت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں جانی نقصان ہوا ہو توتمام انسان سرحدوں اور نظریوں کے جھگڑے بھول کر زلزلہ زدہ یا آفت زدہ ملک میں اکٹھے ہو کر تکلیف کا شکار افراد کی مدد کرنے لگتے ہیں۔ 2005 میں پاکستان اور 2023 میں ترکیہ اور شام میں زلزلے کے وقت بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ترکیہ میں 100 سے زائد ممالک کے ریسکیو اہلکار ملبے تلے دبے ہوئے افراد کو نکالنے میں مصروفِ کار رہے۔ پاکستان کی ریسکیو ٹیم نے اپنا آپریشن مکمل کر لیا جبکہ دیگر ممالک کی جانب سے بھی ریسکیو کی بڑی کارروائیاں ہوئیں۔
زلزلے کے علاوہ دیگر آفات میں بھی عالمی برادری ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے، تاہم پاکستان اور ترکیہ کے برادرانہ تعلقات کے تناظر میں بے شمار پاکستانی ترکیہ کی امداد میں پیش پیش ہیں۔ ترک عوام اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے زلزلہ زدگان کی امداد کیلئے پاکستانی حکومت اور عوام کا شکریہ ادا کیا ہے۔ ایسی ایسی مثالیں بھی دیکھنے کو ملیں جب زلزلے میں کئی گھنٹوں بلکہ 200 سے زائد گھنٹوں تک دبے ہوئے افراد بھی زندہ نکلنے میں کامیاب ہو گئے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی مزید امیدیں دم توڑتی جارہی ہیں۔
ماضی میں 1919 سے لیکر 1923 تک لڑی گئی آزادی کی جنگ میں شرکت کیلئے برصغیر کے اس خطے سے جس میں اب پاکستان ہے مسلمان ترکیہ پہنچے۔ آج بھی ترکیہ کے لوگ یہ واقعہ یاد کرتے ہیں اور پاکستانی کے قوم کے جوش و جذبے، بھائی چارے اور خیر سگالی کے جذبات کے مشکور ہیں۔ اس جنگ میں عورتوں نے اپنی جیولری اور گہنے بیچ کر بھی ترکیہ کی امداد کو اولین اہمیت دی تھی۔ زلزلے کے بعد ملبے میں پھنسے ہوئے لوگوں کوجس طرح طویل وقت کے بعد ملبے سے زندہ نکالا گیا، اس میں ان زندہ رہ جانے والے لوگوں کے بھی جوش و جذبے سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں اللہ سے کتنی امید تھی۔
بہت سے ایسے لوگ موت کے قریب پہنچ گئے تھے، تاہم جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے کے مصداق بے شمار لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے زندگی سے ایک بار پھر نوازا تاہم ترکیہ اور شام کو زلزلہ زدگان کو ریسکیو کرنے کے بعد بھی بڑے بحرانوں کا سامنا رہے گا جس میں زلزلہ زدگان اور ملکی انفرااسٹرکچر کی بحالی شامل ہے۔ زلزلہ زدگان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو طویل عرصے تک ٹراؤما ، جسمانی معذوری کا شکاریا پھر زخموں سے چو ر نظر آئیں گے۔ متعلقہ حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ ایسے افراد کی ہر ممکن امداد کریں۔
زخمی افراد کی تعداد ہزاروں سے نکل کر لاکھوں تک جا پہنچی۔ بے شمار افراد بے روزگار ہوچکے ہیں ۔ کتنوں ہی کی کمپنیوں کی مرکزی عمارات زلزلے سے متاثر ہو کر تباہ ہوگئیں۔ تمام تر انفرا اسٹرکچر کی بحالی کیلئے اربوں ڈالرز کا خرچ آئے گا۔ پاکستان میں بالا کوٹ اور باغ سمیت دیگر شہروں میں زلزلے یا گزشتہ برس کے سیلاب کے بعد انفرا اسٹرکچر کی بحالی کا کام مکمل نہیں ہو سکا۔ 2005 کے زلزلے کو 17 سال گزر گئے تاہم انفراسٹرکچر کی بحالی کی تکمیل کے کوئی آثار نظر نہیں آتے بلکہ زلزلہ زدگان اب بھی مزید امداد کے منتظر ہیں۔
علاقائی تنظیموں کو اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے باب 8 کے تحت تشکیل دیا جاتا ہے۔ ان کے پاس باہمی تعاون کے اختیارات ہوتے ہیں۔ اسی طرح شنگھائی تعاون تنظیم، نیٹو، اسلامی تعاون تنظیم اور امریکا سمیت دیگر عالمی برادری کے اراکین کو ترکیہ کی امداد کیلئے اپنا زیادہ سے زیادہ کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ترکیہ کے زلزلہ زدہ عوام بحالی کی جانب گامزن ہوسکیں۔