عدلیہ کا کردار اور انصاف کے تقاضے

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
5560 روپے کا ایک کلو آٹا
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سیاستدانوں اور عدلیہ کے مابین مثبت تعلقات ایک آزادانہ و منصفانہ معاشرے کے قیام میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ ایک ایسا معاشرہ جہاں عوام عدل و انصاف کی بجا طور پر توقع کرسکتے ہیں۔

دراصل کسی بھی معاشرے میں اتحاد و اتفاق ہی وہ عنصر ہے جس کی بنیاد پر کوئی بھی معاشرہ دیگر معاشروں کیلئے ایک مثال بن سکتا ہے۔ عدلیہ اور سیاستدان ریاست کا اہم ستون ہیں۔ عسکری ستون اور صحافتی ستون بھی اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں۔

گزشتہ روز چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک ہی قانون کی 2 تشریحات سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل 25 وسائل کی منصفانہ تقسیم کا مطالبہ کرتا ہے۔ حکومت کا کام سبسڈی دینا اور سپریم کورٹ کا صرف یہ دیکھنا ہے کہ سبسڈی بلا امتیاز ہے یا نہیں۔

دراصل عدلیہ کسی بھی ریاست میں آئین کی علمبردار اور محافظ ہوتی ہے جو عدل و انصاف کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ جب سیاستدانوں اور عدلیہ کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں تو اس سے قانون کی حکمرانی بہترنظر آنے لگتی ہے اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔

ضروری ہے کہ سیاستدان عدلیہ کی آزادی اور سالمیت کا احترام کریں جبکہ عدلیہ کو بھی چاہئے کہ سیاسی معاملات میں بیان بازی اور بے جا محاذ آرائی سے گریز کرے۔

جب سیاستدان طبقہ اپنے مفادات کیلئے عدالتی فیصلے تلاش کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ہی قانون کی 2 یا اس سے زیادہ مختلف تشریحات سامنے آسکتی ہیں جس سے نہ صرف قانونی ابہام بلکہ ناانصافی جیسا تاثر پیدا ہونے لگتا ہے۔

عوام الناس کو یہ تاثر دینا آسان ہوجاتا ہے کہ عدلیہ اپنی مرضی سے قانون میں تبدیلیاں کرنا چاہتی ہے یا جس سیاستدان نے کسی دوسری پارٹی کے خلاف وہ تشریح حاصل کی ہوتی ہے، وہ اسے آسانی سے اپنی تنقید کا نشانہ بنا سکتا ہے۔

یہ یقینی بنانا ضروری ہے کہ قانونی فیصلوں کی رہنمائی سیاسی مصلحت کی بجائے قانونی و آئینی اصولوں کی بنیاد پر ہو۔ جب سیاستدان وسائل کی تقسیم سے متعلق معاملات میں فیصلوں کیلئے عدالت سے رجوع کرتے ہیں تو عدالت کا کام یہ یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تقسیم منصفانہ ہو۔

وسائل کی تقسیم ایسی ہونی چاہئے جس سے معاشرے کے تمام تر طبقات کو فائدہ پہنچے اور جانبداری یا تعصب نہ برتا جائے جبکہ آزاد عدلیہ جمہوریت کی بنیاد ہوا کرتی ہے جو سیاستدانوں کے فیصلوں پر چیک اینڈ بیلنس کے اصولوں کو نافذ کرسکتی ہے۔

 

Related Posts