تاریخ شاہد ہے کہ مملکت پاکستان نے ہر دور میں افغانستان کے لئے نرم گوشہ رکھا اور افغانستان کو اپنے پڑوسی بھائی کی طرح دیکھا، امریکی انخلاء کے موقع پر جب افغانستان میں عدم تحفظ کی صورتحال پیدا ہوئی تو پاکستان نے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دی، اس کے علاوہ غذائی اجناس کے علاوہ دیگر اشیاء بڑی مقدار میں فراہم کی گئیں، جس کی مثال نہیں ملتی، غرض یہ کہ ہر سطح پر پاکستان کی جانب سے افغانستان کے لئے اقدامات اُٹھائے گئے۔ دیکھا جائے تو پاکستان نے افغانستان کو جو عزت دی اس کے جواب میں پاکستان جس محبت اور خلوص کا مستحق تھا وہ اسے نہ مل سکا۔
گز شتہ جمعہ کو افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفیر قاتلانہ حملے میں بال بال بچ گئے جب کہ دہشت گردوں کی فائرنگ سے پاکستانی مشن کے سربراہ کی حفاظت پر مامو ر پاکستانی سکیورٹی گارڈ شدید زخمی ہو گیا ہے۔اس کے سینے پر تین گولیا لگیں، مگر اُس نے پاکستانی مشن کے سربراہ کی جان بچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی،پاکستان کی جانب سے اس حملے کی پر زور مذمت کی گئی، اسلام آباد میں تعینات افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کرکے تشویش کا اظہار کیا گیا۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی اتوار کے روز آئی ایس پی آر نے بیان جاری کیا کہ افغانستان سے بلااشتعال ہونے والی فائرنگ اور گولہ باری سے چھ عام شہری شہید ہوئے ہیں جب کہ 17 زخمیوں کو طبی امداد دی گئی ہے۔ افغانستان میں سرحد کی حفاظت پر مامور اہلکاروں نے پاکستان میں چمن کی عام آبادی والے علاقے کو بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا،وزیر اعظم شہباز شریف نے اس واقعے کی سخت مذمت کی اور وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے گہری تشویش کا اظہار کیا۔ پاک فوج نے جوابی کارروائی کرنے کا بھی دعویٰ کیا۔
اس ساری صورتحال کے بعد ہر ذی شعور پاکستانی یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ کہیں ہم یکطرفہ دوستی تو نہیں نبھا رہے، کیونکہ دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا اور قیمتی جانوں کا ضائع ہونا اب معمول بنتا جارہا ہے، پاکستان کی حکومت کو اس حوالے سے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اُٹھانے کی ضرورت ہے، جبکہ دونوں ممالک کی اعلیٰ قیادت کو اس حوالے سے سنجیدگی سوچنا ہوگا تاکہ آئندہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کا مشاہدہ نہ ہوسکے اور دوبرادر اسلامی ممالک کے درمیان دراڑ ڈالنے کی دشمن کی سازش کامیاب نہ ہوسکے۔