پاکستان ٹی ٹی پی کیخلاف ثبوت دے، کارروائی کریں گے، طالبان ترجمان

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت پڑوسیوں کے حقوق پرعمل نہیں کرتی اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پابند ہے۔

قطرکے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے امریکا کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں طالبان کے نمائندوں نے وعدہ کیا تھا کہ وہ افغانستان میں عسکریت پسندوں کو جگہ نہیں دیں گے ساتھ ہی اپنے ملک کی سرزمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں:

اسرائیل کے احتجاج کے بعد سویڈن میں تورات جلانے کا منصوبہ ترک کر دیا گیا

اس حوالے سے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دوحہ معاہدے پر امریکہ کے ساتھ دستخط کیے ہیں، افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہوگی اور پاکستان ایک برادر اور مسلم ملک ہے، ہم اسے ایسا ہی سمجھتے ہیں۔

ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کی حکومت ان کو ثبوت دیتی ہے تو وہ پاکستانی طالبان کے خلاف اقدامات کریں گے۔ مزید کہا کہ پاکستانی فریق نے ملاقاتیں بھی کی ہیں۔

یاد رہے کہ حال میں ہی بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملوں میں نو پاکستانی فوجی شہید ہوئے تھے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے جب پوچھا گیا کہ اگر پاک فوج افغانستان کی سرزمین پر دوبارہ حملہ کرتی ہے تو ان کا کیا ردعمل ہوگا؟

انہوں نے جواب دیا کہ ہم سنجیدگی سے اس کی روک تھام کرتے ہیں اور کسی کو اپنی سرزمین پر تجاوزات کی اجازت نہیں دیتے۔

طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے لیے پاکستانی طالبان کے نمائندے شمالی وزیرستان سے آئے تھے اور اب جب کہ یہ مذاکرات بے نتیجہ ہو چکے ہیں، مذاکرات کی ثالثی بھی ختم ہو گئی ہے۔

افغانستان میں طالبان حکومت کی ثالثی میں پاکستانی طالبان اور پاکستانی حکومت کے نمائندوں کے درمیان متعدد مذاکرات ہوئے جس کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔

ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ مذاکرات کے لیے پاکستانی طالبان کے نمائندے شمالی وزیرستان سے آئے تھے، یہ مذاکرات بے نتیجہ ہو چکے ہیں ساتھ ہی مذاکرات کی ثالثی بھی ختم ہو گئی ہے۔

پاکستانی حکومت کے مطابق مذاکرات میں پاکستانی طالبان کے مطالبات کچھ ایسے تھے جن کو ماننا مشکل تھا۔

ان میں ٹی ٹی پی کے رہنماؤں پر سے تمام پابندیاں اٹھانا، پاکستانی طالبان کی سابق قبائلی علاقوں میں ان کے ہتھیاروں کے ساتھ واپسی، طالبان قیدیوں کی رہائی اور سابق قبائلی علاقوں سے پاکستانی فوجیوں کا انخلاء جیسے مطالبات شامل تھے۔

Related Posts