کھیلوں کی کارکردگی

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان نے ٹوکیو اولمپکس کا اختتام مایوس کن کارکردگی کے ساتھ کیا،جبکہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی ایک بھی تمغہ جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکے، کوئی بھی ایتھلیٹ زیادہ آگے پہنچنے میں کامیاب نہ ہوا، کچھ کھلاڑیوں نے کوشش کی مگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو ایتھلیٹ فائنل میں پہنچنے، جیولین تھرو میں ارشد ندیم اور ویٹ لفٹنگ میں طلحہ طالب،وہ آخری راؤنڈ میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے، مگر فائنل میں ہار گئے، شوٹر گلفام 10 میٹر ایئر فائر میں آخری مقام پر پہنچنے کے بعد جیتنے سے محروم ہوگئے، ایتھلیٹس کو ان کی کاوشوں اور قوم کو ایک امید دینے کے باعث پذیرائی ملی ہے، کیونکہ ہمارے ہاں ان کھیلوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ان مقابلوں میں شریک ہونے والے کھلاڑیوں کی جانب سے اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں معاونت اور وسائل کی تقسیم کا فقدان ہے، بہت سے کھلاڑیوں نے اپنی پوزیشن خود حاصل کی یا انہیں دعوت نامہ دیا گیا۔ بین الاقوامی کھیلوں میں پاکستان کی موجودگی حالیہ برسوں میں کم ہوئی ہے۔ ہم نے 1992 کے بعد اولمپک میڈل نہیں جیتا۔ ہاکی ٹیم جس نے سب سے زیادہ تمغے جیتے وہ بھی پچھلے دو اولمپکس میں بھی ناکام رہی۔

کھیلوں کی مالی اعانت پر تنقید کی جاتی ہے اور اسے وسائل کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ اسپورٹس ایسوسی ایشنز اور بورڈز کھلاڑیوں کو وسائل فراہم کرنے میں ناکام ہیں جبکہ کارپوریٹ اسپانسرشپ ایک دور کا خواب ہے۔ ایتھلیٹس کو اپنے اخراجا ت خود اُٹھانا پڑتے ہیں، یا دوسرے وسائل تلاش کرنے پڑتے ہیں۔ ہمارے پاس کھیلوں کی مناسب سہولیات اور کوچنگ کا بھی فقدان ہے،جہاں ہمارے کھلاڑی بہترین کارکردگی کے لیے تربیت حاصل کرسکیں، اگر ہم مستقبل کے ایونٹس میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو کھیلوں کی فنڈنگ ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔

وزیر اعظم، جو خود ایک معروف کھلاڑی رہ چکے ہیں، نے اعتراف کیا ہے کہ وہ دیگر اہم مسائل کی وجہ سے کھیلوں کی ترقی پر توجہ مرکوز کرنے سے قاصر رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کو کھیلوں کے شعبے کی اصلاح میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ان کی توجہ صرف کرکٹ پر مرکوز ہے، ٹوکیو اولمپکس میں ہندوستان کی کامیابی، جہاں اس نے ایک سونے سمیت مزید سات تمغے حاصل کیے، ریاست اور نجی شعبے کی سرپرستی کی وجہ سے ممکن ہوا، یہ ضروری ہے کہ ہم بھی اسی طرح کے اقدامات کریں۔

اولمپک کمیٹی کے سربراہ کو چاہئے کہ فوری طور مستعفی ہوں، 17سال تک ایک عہدے پر براجمان رہنے کے باوجود کوئی کارکردگی نہ دکھانے پر انہیں برطرف کیا جانا چاہئے۔ یہ سب کچھ بہت عجیب ہوسکتا ہے، مگر ہمارے ہاں کھیلوں کا فقدان ہے، ہمیں اپنے اہداف حاصل کرنے اور آگے مستقبل میں کوئی مقام حاصل کرنے کے لئے مزید دیر نہیں کرنی چاہئے۔

Related Posts