سیمی فائنل ہم ہار گئے، اس ورلڈ کپ سے باہر ہوگئے مگر ٹیم کی کارکردگی ایسی رہی کہ اسے سراہا جائے، اسے بیک کیا جائے اور مستقبل کے لئے انہیں مزید گروم کیا جائے۔یہ شکست مگر چند اہم سبق سکھاتی ہیں، جنہیں سمجھ لیا جائے تو آئندہ کے دھچکوں سے بچا جا سکتا ہے۔
ویک لنک کسی بھی وقت نقصان پہنچا سکتا ہے
دوعشرے پہلے کی بات ہے ، لاہور میں ممتاز ادیب اور لفظوں کے جادوگر اشفاق احمد سے پہلی ملاقات ہوئی، ڈھائی تین گھنٹے کی سحرانگیز گفتگو کے بعد جب اٹھنے لگا تو ان کے آگے آٹو گراف بک کی ، اشفا ق احمد نے ایک لمحے سوچاا ور پھر جملہ لکھا، ” زنجیر کی کمزور کڑی ہی سب سے طاقتور کڑی ہے کہ وہ جب چاہے زنجیر توڑ سکتی ہے۔“ فقرے کی معنویت اور گہرائی پر ہم غور کرتے رہے، کچھ سمجھ آیا، کچھ نہ آیا۔وقت اور تجربے نے مگر یہ سکھادیا کہ اپنے کسی کام، پراجیکٹ ، تنظیم یا دفتری ٹیم میں کبھی ویک لنک نہیں رکھنا چاہیے ۔ اگر کہیں سے کوئی کمزور کڑی آ گئی ہے اور نجات پانا ممکن نہیں تو اسے فیصلہ کن بحرانی امور سے باہر رکھنا چاہیے ۔
سیمی فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کے بعد ٹیم مینجمنٹ کو بھی یہ احساس ہوگا کہ صرف سنہری اقوال سے بات نہیں بن سکتی اور بار بار مواقع دینا کبھی اعتماد بڑھانے کے بجائے مزید شکستہ کر دیتا ہے۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں ایک دو ویک لنک یا کمزور کڑیاں تھیں۔جیسے فخر زمان اچھے ردھم میں نہیں تھے، محمد حفیظ پچھلے کئی ماہ سے آؤٹ آف فارم رہے۔
اسی طرح حسن علی ورلڈ کپ سے تین چارماہ پہلے سے اپنا ردھم کھو بیٹھے۔ حسن علی کی ٹیم میں جگہ ایک مرکزی باؤلر کے طور پر بنتی ہے۔ وہ وکٹیں لیتے اور درمیانی اوورز میں ٹیم پر دباؤ ڈالتے ہیں۔ ضرورت پڑنے پر وہ جارحانہ بیٹنگ کر سکتے ہیں، مگر یہ ان کی ٹیم میں ہونے کا سبب نہیں۔ اگر حسن علی باؤلنگ اچھی نہیں کرا رہے تو ان کی ٹیم میں جگہ نہیں بنتی۔
ٹیم مینجمنٹ نے پہلے میچ میں فخرزمان، حفیظ اور حسن علی کے ساتھ عماد وسیم کو کھلایا اورپھر پہلے میچ جیتنے کے بعد فیصلہ کیا کہ اسی ٹیم کومسلسل کھلایا جائے، یوں حیدرعلی، وسیم جونیئر اور محمد نوازیا سرفراز کے کھیلنے کا امکان ختم ہوگیا۔
ممکن ہے پہلا میچ ہار جاتے تو حیدر علی یا وسیم جونیئر کو موقع دیا جاتا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کھلاڑی غیر معمولی کھیل دکھا دیتے ، مگر یہ سب مفروضات ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ نوجوان کھلاڑی دباؤ برداشت نہ کر پاتے ۔ خیر ٹیم مینجمنٹ کی حکمت عملی فخرزمان اور محمد حفیظ کے بارے میں تو درست نکلی کہ متواتر کھیلنے سے دونوں فارم میں آ گئے۔
عامر خاکوانی کے مزید کالم بھی پڑھیں:
انگلینڈ کی ناکامی کی اصل وجہ کچھ اور ۔۔۔
فتوحات کے جشن میں ان خامیوں کو نہ بھولیں