سوشل میڈیا اور گالی کا کلچر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نہیں معلوم کہ حالیہ دنوں میں ٹویٹر پر خاتون صحافی عاصمہ شیرازی کے ساتھ جو سلوک دیکھا گیا وہ دیگر ممالک کی خواتین صحافیوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے یا صرف ہمارے ہاں ہی ہے۔نہیں جانتا کہ سوشل میڈیا کا منفی بلکہ بڑی حد تک شرمناک استعمال کا چلن صرف ہمارے ہاں ہی ہے یا دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کی صورتحال ہے۔

ہمارے سوشل میڈیا کے گالی بازوں کی دو کٹیگریز ہیں۔ پہلی کٹیگری میں وہ لوگ شامل ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیاں اکاؤنٹس تو بنا رکھے ہیں۔ مگر انہیں اظہار خیال کی قوت حاصل نہیں۔ اور سوشل میڈیا پر اصل کام تو ہے ہی اظہار خیال۔ یہ حضرات صرف دوسروں کو پڑھ کر انہیں ردعمل دے سکتے ہیں۔ چنانچہ کوئی پوسٹ، ٹویٹ یا ویڈیو پسند آجائے تو داد سے نواز دیتے ہیں۔ پسند نہ آئے تو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

لیکن اگر پوسٹ یا ٹویٹ ان کی طبیعت پر گراں گزر جائے تو پھر عام توہین آمیز الفاظ کے ساتھ ساتھ گالیاں بھی داغ دیتے ہیں۔ یہ طبیعت پر گراں گزرنے والا معاملہ بھی عجیب ہی ہے۔ بالعموم یہ صورتحال تب پیش آتی ہے جب ان کی پسندیدہ جماعت یا اس کے لیڈر پر تنقید کردی جائے۔ ورنہ یہ صورتحال کسی مذہبی، سماجی یا سیاسی موضوع کے حوالے سے بھی پیش آسکتی ہے۔

ایسے لوگ یہ قبول کرنے کو تیار ہی نہیں ہوتے کہ ان کے لیڈر یا جماعت سے کوئی غلطی بھی سرزد ہوسکتی۔ ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو دنیا کے ہر موضوع پر لکھی آپ کی ہر تحریر پر آپ کو داد ہی دیتے جائیں گے۔ اور داد بھی ایسی مبالغۃ الاراء کہ آپ کو اپنے ارسطو ہونے کا گماں ہوجائے۔ مگر جوں ہی آپ نے ان کے قائد کو موضوع بنایا، تو ردعمل سے یوں لگتا ہے جیسے آپ نے تنقید نہیں عصمت دری کر ڈالی ہے۔

یہی معاملہ ان کے اپنے پہلے سے بنے بنائے تصورات کے حوالے سے بھی پیش آتا ہے۔ یہ تصورات مذہبی ہوں خواہ سیاسی و سماجی۔ یہ آپ سے یہ جبری توقع رکھتے ہیں کہ جو خیالات و تصورات انہوں نے پال رکھے ہیں، آپ کو بھی وہی گود لینے ہوں گے۔ اگر آپ ان کے بنے بنائے تصورات کو چھیڑیں گے تو پھر آپ ڈھال کا انتظام بھی رکھئے۔

آپ کے لئے امن کے لمحے بس تب تک ہی ہیں جب تک آپ ان کے ان بنے بنائے تصورات کو نہ چھیڑیں، جن تصورات کو یہ حتمی شکل دے چکے۔ اور ان کے ہاں طے پاچکا کہ اب ان میں کسی تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں۔۔ یعنی ان کے ہاں وحی کے علاوہ بھی کچھ چیزیں ہیں جن کا درجہ وحی کا ہی ہے۔ ان تصورات یا ان کے پسند فرمودہ قائدین پر آپ کی تنقید صرف ایک ہی صورت میں قبول کی جاسکتی ہے۔

اور وہ یہ کہ کسی طبعی میلان یا فلمی قسم کے ٹریفک ایکسیڈنٹ کے نتیجے میں ان کے تصورات یا قائد تبدیل ہوجائیں۔ یعنی یہ کومے میں تو پٹواری کی حیثت سے پہنچیں مگر نکلیں اس سے یوتھیا بن کر۔ یا تصورات کے باب میں یہ ہوجائے کہ یہ سمجھنے کی بجائے کہ تعویذ سے سب کچھ ہوسکتا ہے، یہ سمجھنا شروع کردیں کہ تعویذ سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ یا یہ باور کرنیکی بجائے کہ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والا ملک بھی چلا سکتا ہے، یہ سمجھنا شروع کردیں کہ نہیں!

ورلڈکپ جیتنے سے ملک چلانے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوتی۔ تو اب آپ کو کھلی اجازت ہے کہ آپ ان کے پچھلے تصور پر تنقید کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں آپ کو تو اجازت مل گئی مگر ساتھ ہی کچھ اور لوگوں پر پابندی بھی لگ گئی۔ اب ان کی شامت آئے گی جو ان کے تازہ تصور کے حریف ہوں گے۔ سو بچت اسی میں ہے کہ پیر ان کی دم سے دور رکھی جائے۔

گالم گلوچ سے کام لینے والے سوشل میڈیا یوزرز کی دوسری کٹیگری میں وہ ٹرولز داخل ہیں جن کی نوکری ہی گالی دینے کی ہے۔ یہ ہر ماہ ماں کے ہاتھ پر تنخواہ ہی گالم گلوچ کی رکھتے ہیں۔ اور ماں سر پر ہاتھ پھیر کر دعاء دیتی ہے، میرا بچہ! رب تجھے بہت ترقی دے۔ آثار سے یہی لگتا ہے کہ مستجاب دعائیں ہیں۔ ٹرولز پانچ سے دس فیک آئی ڈیز کے ساتھ سرگرم رہتے ہیں۔ اگر یہ کسی لبرل جماعت کے ٹرول ہوں تو ان کی آئی ڈی چی گویرا بھی ہوسکتی ہے۔

اور اگر مذہبی جماعت کے ہوں تو یہ ابو فلاں یا ابن فلاں کے نام سے ملیں گے۔ یہ دوسری قسم والی آئی ڈیز بعض ایسے ائمہ مساجد و مدرسین کی بھی ہیں جو پیشہ ور ٹرول نہیں ہیں۔ بس سچے دل سے اسلام کا دفاع گالی کے ذریعے کرتے ہیں۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ گالی اگر دینی غیرت کا نتیجہ ہو تو حلال ہوجاتی ہے۔ پچھلے وقتوں میں دینی غیرت عوام اور خواص دونوں ہی سطح پر کسی اور چیز کا نام تھا۔

مگر آج کل ”مولوی صاحب کا غصہ” ہی دینی غیرت کا درجہ رکھتا ہے۔ پھر اس غصے کا اصل سبب بیشک یہی کیوں نہ ہو کہ حضرت کو آج بھی ناشتے کے بغیر مدرسے جانا پڑا۔ قصور ان کی بیگم کا شامت ہماری۔دونوں بڑی جماعتوں کے پاس ٹرولز کی پوری فوج ہے۔ ان کے سامنے ان افراد کی ایک پوری لسٹ ہوتی ہے، جن کی بات بغور پڑھی یا سنی جاتی ہے۔ سو یہ دن بھر ان کی فیس بک وال یا ٹویٹر ہینڈلز پر گشت فرماتے رہتے ہیں۔

عام حالات میں یہ انہیں ان کی ہی پوسٹوں یا ٹویٹس پر تنگ کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کی جانب سے کوئی بڑی بات سامنے آجائے تو پھر یہ ٹرینڈز بناتے ہیں۔یہ ٹرینڈز ہمیشہ منفی ہی ہوتے ہیں۔ مثبت ٹرینڈز بس دو ہی صورتوں میں نظر آتے ہیں۔ ایک یہ کہ پاکستان کوئی کپ یا ٹرافی جیت لے۔ اور یا پھر یہ کہ کوئی بڑی شخصیت فوت ہوجائے۔

منفی ٹرینڈز کے حوالے سے اگرچہ بدنام زیادہ پی ٹی آئی ہے اور ہے بھی بجا کہ اس کے تو خانِ اعظم بھی جلسوں کے ٹرول ہی ہیں۔ مگر کم نون لیگ کے ٹرولز بھی نہیں۔ نون لیگ کی تو صورتحال یہ ہے کہ ان کے کچھ نامی گرامی ٹرولز تو پورے دھڑلے کے ساتھ اپنی اصل آئی ڈی سے بھی ٹرولنگ فرماتے ہیں۔

ایسی ہی یگانہ ہستیوں میں سے ایک ٹویٹر پر باقاعدہ ”دادا” تعینات ہیں۔ دادا ہمارے معاشرے میں دو ہی قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک پوتے کا دادا اور دوسرا محلے کا۔ وہ حضرت ٹویٹر کی ”مریم سوسائٹی” کے دادا ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے ایک ایسی ٹویٹ فرمائی کہ مغلوں کے درباریوں سے متعلق جو کچھ پڑھ رکھا ہے صرف وہی نہیں بلکہ مہتممین کی جلوت گاہوں میں جو دیکھ رکھا ہے وہ بھی پردہ تصور پر تازہ ہوگیا۔

سو ہم سے رہا نہ گیا اور وہ ٹویٹ اس کیپشن کے ساتھ ریٹویٹ کردی ”پتہ نہیں مکھن خریدتے کس بھاؤ ہوں گے۔ لگانے کا تو پتہ ہے کہ مفت ہیں ” اب اگر آپ غور کیجئے تو یہ جملے اس درجہ پارلیمانی ہیں کہ کالم میں نقل بھی ہوگئے، اور شائع بھی۔ لیکن جوجوابا اس ریٹویٹ پر آکر فرمایا گیا وہ نقل نہیں ہوسکتا۔ سوال یہ ہے کہ اگر نااہلی اس درجے کو پہنچی ہوئی ہے کہ آپ پارلیمانی جملے کی کاٹ پارلیمانی جملے سے ہی کرنے کی استعداد نہیں رکھتے تو پھر آپ کوئی اور دھندہ کیوں نہیں کر لیتے؟

کاٹ دار فقرے کا جواب تو ایسے جملے سے آنا چاہئے کہ ہم کٹ بھی جائیں اور مگر کرافٹنگ کی داد دیئے بنا بھی نہ رہ پائیں۔ گالی والے دھندیسے آپ محلے کے دادا تو بن جائیں گے مگر آپ نے ایک روز پوتے والا دادا بھی تو بننا ہے۔ اگر پوتوں کو بھی اسی راہ پر ڈالنا ہے تو پھر ٹھیک ہے، لگے رہئے۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ معاملہ ”خانہ ہمہ آفتاب است” والا ہوجائے گا، تو ہوجائے، ہمیں کیا فرق پڑتا ہے؟ ہماری تو آپ سے متعلق رائے ہی تقویت پکڑے گی۔

نون لیگ کے اس سوشل میڈیا گینگ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان میں بعض بڑی نامی گرامی ہستیاں بھی شامل ہیں۔ انہی دادا جی کی بغل میں ایک ایسے حضرت بھی جمعے کے جمعے ایک دو بار دیکھے ہیں جو ویسے تو تہذیب، شرافت اور متانت کی بڑی تلقین فرماتے ہیں مگر کچھ سال قبل وہ موصوف بھی فیس بک پر کسی اور کی پوسٹ ہمیں اپنے باطن کی جھلک دکھا چکے۔ جو دیکھا اس کے نتیجے میں پورے اعتماد سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے اس شام ظاہر و باطن عین یکساں پایا۔

گالی کے کلچر سے اس گینگ کا لگاؤ اس حد تک ہے کہ ایک دو ماہ قبل لندن سے ایک خبر آئی، جو ٹویٹر کے بلا مقابلہ سب سے بڑے گالی باز سے متعلق۔ اس گینگ نے اس پر وہ شام غریباں منائی کہ سبحان اللہ۔ پورا گینگ ہی اس کے دفاع میں جت گیا۔ اب یہ ان سے کون پوچھے کہ جس کا یہ دفاع فرما رہے تھے اس کی زنبیل میں گالی کے سوا ہے کیا؟ایک گالی باز کا دفاع تو وہی کرسکتا ہے جسے گالی کے کلچر سے قلبی لگاؤ ہو۔

بلکہ اس کی روزی روٹی کلی یا جزوی طور پر گالی سے ہی جڑی ہو۔ اس باب میں اپنا چلن تو یہ ہے کہ ایک مشہورمذہبی گالی باز قتل کردئے گئے تو ان کے چاہنے والوں نے انہیں شہید اسلام سمیت نہ جانے کیا کیا ٹائٹلز دے ڈالے۔ بعض نے ہم سے بھی کچھ لکھنے کا کہا تو یہی کہہ کر انکار کردیا کہ گالی باز سے ہمارا کیا لینا دینا؟۔ جس شخص کا ترکہ ماں اور بہن کی ننگی گالیوں پر مشتمل پوسٹیں بھی ہیں۔ اسے بعد از مرگ دعاء کے سوا کچھ نہیں دے سکتے!

Related Posts