سماجی فاصلہ اور رمضان المبارک کے دوران عبادات کی ادائیگی

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

رمضان میں مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت پر پابندی کیلئے نئی تجاویز جاری
رمضان میں مساجد اور امام بارگاہوں میں عبادت پر پابندی کیلئے نئی تجاویز جاری

ماہِ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے جو اپنے ساتھ رحمتوں، برکتوں اور پروردگار کی ان گنت عنایات کے ساتھ وطنِ عزیز پاکستان سمیت دنیا کے ہر ملک پر سایہ فگن ہورہا ہے جبکہ اس دوران کورونا وائرس کے باعث لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلے کی پابندی بھی لازمی ہے تاکہ کورونا وائرس جیسی عالمی وباء سے بچا جاسکے۔

ایک طرف علمائے کرام رمضان المبارک کے دوران لاک ڈاؤن کی پابندیوں کے حوالے سے دو دھڑوں میں تقسیم نظر آتے ہیں جبکہ دوسری جانب ڈاکٹر حضرات اور وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی لاک ڈاؤن کے حوالے سے متضاد بیانات کے تناظر میں شش و پنج کا شکار نظر آتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ رمضان المبارک کے دوران پنج وقتہ نماز کی ادائیگی، نمازِ جمعہ اور تراویح کے دوران اگر سماجی فاصلے کا خیال رکھنا لازم ہے تو عبادات کا حقیقی خشو ع حضوع کیسے حاصل ہوگا؟ اور اگر جماعت کے دوران نمازی ملک کی چند ایک یا متعدد مساجد میں کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہو گئے تو کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے اٹھائے گئے حکومتی اقدامات کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟

رمضان المبارک اور عبادات

ماہِ رمضان المبارک گیارہ ماہ کے طویل انتظار کے بعد اہلِ ایمان کے لیے سعادتوں اور گناہوں کی مغفرت کا سب سے بڑا موقع بن کر ہمارے سامنےموجود ہے۔رویتِ ہلال کمیٹی آج رمضان المبارک کا چاند دیکھنے کے لیے اجلاس منعقد کر رہی ہے جس کے بعد رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کل ہوگی یا پرسوں، یہ فیصلہ کر لیا جائے گا۔

تراویح رمضان المبارک کی ایک اہم عبادت ہے، اگر آج رمضان المبارک کا چاند نظر آگیا (جس کے امکانات کم نظر آتے ہیں) تو آج رات، بصورتِ دیگر کل شب کے وقت سے نمازِ تراویح کی ادائیگی شروع ہوجائے گی۔

ایک صاحبِ ایمان مسلمان کے لیے تراویح کی ادائیگی ایک بے حد خاص موقع ہے جس کے لیے نمازی حضرات خصوصی اہتمام کے ساتھ سنت کی پیروی کا اہتمام کرتے ہوئے خوشبو لگا کر مسجدوں میں تشریف لے جاتے ہیں۔

عام حالات کے دوران نمازِ باجماعت کی ادائیگی کے لیے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہوتا ہے۔ امام صاحب باآوازِ بلند تلاوت کرتے ہیں اور تمام نمازی حضرات قرآن مجید کی پہلے پارے سے لے کر تیسویں پارے تک مکمل تلاوت کی سماعت کرتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک بے حد روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔

لاک ڈاؤن اور سماجی فاصلہ

کورونا وائرس دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور وطنِ عزیز میں بھی 10 ہزار سے زائد افراد کورونا وائرس کا شکار اور 200 سے زائد افراد وائرس کے باعث جاں بحق ہوچکے ہیں جس کے پیشِ نظر حکومتِ وقت نے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا  جس کے تحت بلا ضرورت آپ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے۔

لاک ڈاؤن کے پیشِ نظر ایک صوبے سے دوسرے صوبے یا ایک شہر سے دوسرے شہر تو درکنار، ایک ہی شہر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک رسائی بعض اوقات ناممکن بن جاتی ہے جبکہ اس دوران سماجی فاصلے کی پابندی پر بھی زور دیا جارہا ہے اور کہا جارہا ہے کہ شہری ایک دوسرے سے ایک محفوظ فاصلہ برقرار رکھیں۔

سماجی فاصلے سے مراد ایک فرد سے دوسرے فرد کے درمیان جسمانی فاصلہ ہے جس کے تحت ہر شہری پر لازم ہے کہ وہ دوسرے شہریوں، رشتہ داروں اور اہلِ خانہ سے بھی کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے 4 سے 6 فٹ کا فاصلہ برقرار رکھے۔

روزے کی ادائیگی اور نماز کی جماعت چھوڑنے کا مسئلہ 

دینِ اسلام میں شریعت وہ قانونی دستاویز ہے جو مذہبی معاملات سمیت زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں بے مثال رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ عبادات کی ادائیگی سے زیادہ زندگی کی حفاظت اہم ہے جس کی مثال نماز اور روزے جیسی اہم عبادات سے لی جاسکتی ہے۔

شریعت کے قوانین کے لیے سب سے بڑا مآخذ قرآن ہے جس کے بعد سنت اور حدیث اہم ہیں۔   قرآن پاک کی سورۂ بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے: 

اگر کوئی شخص تم میں سے بیمار یا سفر میں ہو تو اس دوران (چھوڑے گئے) روزوں کو گن لے۔ جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہوں (لیکن نہ رکھیں) وہ اس کے بدلے کسی ضرورت مند کو کھانا کھلا دیں جبکہ شوق کے ساتھ نیکی کرنا نیکو کار کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔(آیت 184)

قرآنِ پاک نے واضح کردیا کہ بیماری اور سفر کے دوران روزے چھوڑے جاسکتے ہیں لیکن رکھ لیے جائیں تو بہتر ہے تاہم اس سے زیادہ ہمارے لیے یہ بات اہم ہے کہ کیا نماز کی ادائیگی کے دوران باجماعت نماز کی ادائیگی کی شرائط میں ہمیں کوئی چھوٹ دی گئی ہے؟

سنت اور حدیث کی روشنی میں ہم پر لازم ہے کہ نماز گھر میں ادا کرنے کی بجائے مسجد میں جا کر ادا کریں جبکہ باجماعت نماز کا ثواب اکیلے پڑھنے سے بے حد افضل ہے۔ بلا جواز جماعت چھوڑنے پر سخت وعید آئی ہے تاہم مجبوری کی صورت میں رخصت بھی دی گئی ہے۔

جن حالات کی بنیاد پر باجماعت نماز ترک کرکے گھروں میں ادائیگی کا اختیار ہے ان میں لباس اور ستر کی شرائط کا پورا نہ ہونا، راستے کی مشکلات بشمول کیچڑ، خوفناک حالات اور جانوروں (کتا، سانپ، بچھو وغیرہ) سے کاٹے جانے کا خوف اور شدید بارش شامل ہیں۔

دوسری جانب سخت سردی یا گرمی جو بیماری کی پیدائش یا اضافے کا باعث بن سکے، گھپ اندھیرا، چوری اور ڈاکے کا خطرہ، دشمن کے حملے، شدید بھوک، پیاس، گاڑی نکل جانے کا خطرہ  یا ایسی بیماری جو چلنے پھرنے سے روک دے، یہ سب اسباب نماز کی گھر میں ادائیگی کے لیے کافی ہیں۔

عبادات اور جان کی حفاظت میں ٹکراؤ

یہ سمجھنا بے حد ضروری ہے کہ عبادات کی ادائیگی کو اسلام نے زندگی کی حفاظت پر مقدم نہیں رکھا، تاہم عبادات کو بلا ضرورت چھوڑنا بھی کوئی مستحسن اقدام نہیں۔

ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے لوگوں کو نماز روزے کی ادائیگی چھوڑ دینی چاہئے اور گھروں میں بیٹھ کر صرف ذکر اذکار سے کام چلانا چاہئے کیونکہ عبادات بھی ضروری ہیں۔

نمازِ باجماعت کی جگہ گھروں پر نماز کی ادائیگی کی جاسکتی ہے۔ سحری و افطاری میں سماجی فاصلے کی قید کوئی مسائل پیدا نہیں کرتی۔ اس لیے ہر مسلمان باآسانی تمام روزے رکھ سکتا ہے۔ 

اجماع کی ضرورت 

اجماع شرعی مسائل کے حل کا مستحسن طریقہ ہے جس کے تحت کسی نئے مسئلے کے حل کے لیے قرآن و سنت کی رہنمائی اور علمائے کرام کی باہمی مشاورت سے ایک شرعی فیصلہ کیاجاتا ہے جس پر عمل ہر مسلمان پر فرض قرار پاتا ہے۔

تمام شرعی قواعد کو سامنے رکھتے ہوئے اگر علمائے کرام سر جوڑ کر بیٹھیں تو کورونا وائرس جیسی عالمی وباء کے پیشِ نظر پاکستانی قوم رمضان المبارک میں عبادات کی ادائیگی کے لیے ایک واضح لائحۂ عمل ترتیب دے سکتی ہے جس سے امت کسی تفرقے کا شکار نہیں ہوگی۔

Related Posts