مقامی کاٹن مارکیٹ میں روئی کے بھاؤ میں نمایاں اضافہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے کاروبار میں سست روی رہی
مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے کاروبار میں سست روی رہی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

روئی کے بھاؤ میں تیزی غالب۔ گزشتہ ایک مہینے کے دوران روئی کے بھاؤ میں فی من تقریبا 4 ہزار روپے کا نمایاں اضافہ۔ کاروباری حجم مثبت۔ بین الاقوامی کاٹن میں مجموعی طور پر تیزی۔ پاکستان کاٹن، ٹیکسٹائل سیکٹرز امریکن سفارت کار کا APTMA کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا آئندہ حکومت کیلئے پالیسی روڈ میپ تیار۔ سندھ میں گارمنٹس سٹی کیلئے 300 ایکڑ رقبہ مختص۔ کپاس کی فصل محفوظ رکھنے کیلئے گلابی سنڈی اور سفید مکھی کی تدارک کے اقدامات کئے جائیں۔ کپاس کے کاشتکاروں کو مناسب قیمت نہ ملنے کی وجہ سے کاشت کم ہورہی ہے۔ منیر احمد جمانی۔

مقامی کاٹن مارکیٹ میں گزشتہ ہفتے کے دوران روئی کے بھاؤ میں تیزی کا عنصر غالب رہا بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں اضافے کے زیر عصر مقامی مارکیٹ میں بھی کاٹن کے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان برقرار رہا اس کی ایک وجہ مقامی مارکیٹ میں کوالٹی کاٹن کا اسٹاک بھی کم ہوتا جا رہا ہے ٹیکسٹائل کے بڑے گروپ کوالٹی کاٹن ہاتھ کر رہے ہیں۔

جب نیو یارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ فی پاؤنڈ 79 تا 81 تھا اس وقت بڑے گروپ روئی درآمد کر رہے تھے لیکن نیویارک کاٹن تقریباً 5.50 تا 6 امریکن سینٹ بڑھ جانے کی صورت میں برآمدی معاہدے کم ہوگئے اور مقامی کاٹن میں تیزی بڑھ گئی۔

ٹیکسٹائل ملز کی خریداری بڑھ جانے کی وجہ سے گزشتہ ایک ہفتے میں خصوصاً نئے سال کے آغاز سے روئی کے بھاؤ میں ہو شربا اضافہ ہو گیا جو کوالٹی کے حساب سے فی من 3000 تا 4000 روپے تک بڑھ گیا 2023-12-23 کو صوبۂ سندھ میں روئی کا بھاؤ 15500 تا 17800 روپے چل رہا تھا اور صوبۂ پنجاب 16500 تا 17000 روپے چل رہا تھا جس میں تقریباً 4000 روپے کا اضافہ ہو کر صوبۂ سندھ میں کوالٹی کے حساب سے روئی کا بھاؤ 18500 تا 21000 روپے صوبۂ پنجاب میں 19000 تا 21000 روپے چل رہا ہے۔ جبکہ اسپاٹ ریٹ 2700 روپے کے اضافہ کے ساتھ 19700 روپے چل رہا ہے۔
روئی کے بھاؤ میں اضافہ کے باوجود کاروباری حجم بھی بہتر ہے ۔ روئی کے بھاؤ میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے توانائی 14 سے 9 امریکن سینٹ کرنے کے اعلان کی بازگشت بھی ہے علاوہ ازیں پاکستان کی + GSP بھی 2027 تک بحال رکھا ہوا ہے ۔ جبکہ heimtextil نسبتاً مثبت رہا ۔ SBP کی جانب سے 29 جنوری کو Monetary Policy بھی دی جاۓ گی۔
موصولہ رپورٹ کے مطابق کپاس کے سیزن کے لئے خصوصاً صوبۂ سندھ کے زیریں علاقوں میں اگیتی روئی کی زیادہ بوائی ہونے کی توقع ہے جبکہ پنجاب کے کئی علاقوں میں ٹنل فارمینگ میں کپاس کی بوائی کی جارہی ہے وہ بھی اگیتی ہوگی دیکھا گیا ہے کہ اگیتی کاٹن بھی نسبتاً بہتر ہوتی ہے۔ اور ریٹ بھی معقول حاصل ہوتے ہیں۔

اس سیزن میں ملک میں روئی کی پیداوار تقریباً 84 لاکھ گانٹھوں کی ہونے کی توقع ہے جبکہ ٹیکسٹائل ملز کی ضرورت تقریباً ایک کروڑ 30 لاکھ گانٹھوں کی ہے بیرونی ممالک کی تقریباً 10 لاکھ گانٹھوں کی بمشکل ضرورت رہے گی کیوں کہ گزشتہ سال کی تقریباً 15 لاکھ گانٹھوں کے درآمدی معاہدے پورے کرنے ہیں علاوہ ازیں افغانستان سے تقریباً 8 لاکھ گانٹھیں در آمد ہوں گی۔ افغانستان کا طورخم بارڈر 10 دن بند ہونے کے بعد کھول دیا گیا ہے جبکہ چمن کا بارڈر تقریباً گزشتہ تین مہینوں سے بند ہے امید ہے وہ بھی کھول دیا جائے گا۔

کراچی کاٹن ایسوسی ایشن کی اسپاٹ ریٹ کمیٹی نے اسپاٹ ریٹ میں 700 روپے کا اضافہ کرکے فی من 19700 روپے کے بھاؤ پر مستحکم رکھا۔ کراچی کاٹن بروکرز فورم کے چیئرمین نسیم عثمان نے بتایا کہ بین الاقوامی کاٹن کے بھاؤ میں اضافہ کا رجحان ہے خصوصی طور پر نیویارک کاٹن کے وعدے کا بھاؤ بڑھ کر 85.54 سینٹ ہونے کے بعد 84.37 امریکن سینٹ پر بند ہوا۔ USDA کی ہفتہ وار برآمدی اور فروخت رپورٹ کے مطابق سال سال 24-2023 کیلئے 2 لاکھ 7 ہزار گانٹھوں کی فروخت ہوئی۔

چین 1 لاکھ 3 ہزار 300 گانٹھیں خرید کر سرفہرست رہا۔
ویت نام 33 ہزار 800 گانٹھیں خرید کر دوسرے نمبر پر رہا۔
بنگلہ دیش 21 ہزار 700 گانٹھیں خرید کر تیسرے نمبر پر رہا۔
پاکستان 15 ہزار 100 گانٹھیں خرید کر چوتھے نمبر پر رہا۔
برآمدات 1 لاکھ 42 ہزار 200 گانٹھوں کی ہوئی۔
چین 53 ہزار 400 گانٹھیں درآمد کرکے سرفہرست رہا۔
ویت نام 23 ہزار 200 گانٹھیں درآمد کرکے دوسرے نمبر پر رہا۔
میکسیکو 11 ہزار 900 گانٹھیں درآمد کرکے تیسرے نمبر پر رہا۔
ایک حالیہ ملاقات میں، لاہور میں امریکی قونصل جنرل کرسٹن کے ہاکنز نے آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) کے ساتھ پاکستان اور امریکہ کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو بڑھانے کے لیے بات چیت کی۔
اپٹما کے رہنماؤں بشمول کامران ارشد، چیئرمین شمالی زون، اور احمد شفیع، وائس چیئرمین نے امریکی قونصل جنرل کا پرتپاک استقبال کیا۔ تجارت اور سرمایہ کاری کے تعلقات کو وسعت دینے کے وسیع تر مقصد کے ساتھ، بات چیت کاٹن اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں تعاون پر توجہ مرکوز کی گئی۔
پاکستان کی روئی کی گرتی ہوئی ملکی پیداوار پر تشویش کا اظہار کیا گیا، اس سال 30 لاکھ گانٹھوں سے زیادہ درآمد کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ امریکہ، پاکستان کو کپاس کا ایک بڑا سپلائی کرنے والا، بنیادی طور پر امریکہ کو برآمد کرنے کے لیے، 8 بلین ڈالر مالیت کے ٹیکسٹائل کی پیداوار میں حصہ ڈالے گا۔

کامران ارشد نے ٹیکسٹائل انڈسٹری کے اہم کردار پر زور دیا جو کل برآمدات کا 62 فیصد ہے۔ انہوں نے GSM-102 کے تحت امریکی کپاس کی درآمد کے لیے ایک طریقہ کار تجویز کیا، جس میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی برآمد سے حاصل ہونے والی رقم ضمانت کے طور پر کام کرتی ہے۔
پاکستان میں ٹیکسٹائل انڈسٹری کی مضبوطی کو اجاگر کرتے ہوئے، ارشد نے امریکہ کو پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار قرار دیا، جس کی دو طرفہ تجارت 2021-22 میں 9.85 بلین امریکی ڈالر تک پہنچ گئی۔ پاکستان نے امریکہ کو 6.8 بلین ڈالر کی برآمدات کیں جبکہ 3.0 بلین ڈالر کی درآمدات کیں۔

اپٹما نے امریکہ اور پاکستان کے کپاس کے مضبوط روابط، امریکی ٹیکسٹائل انڈسٹری کے ذریعے پاکستان میں ٹول مینوفیکچرنگ کو فروغ دینے اور زیادہ پیداوار دینے والے کپاس کے بیج کے لیے ٹیکنالوجی کی منتقلی کی وکالت کی۔ ارشد نے پاکستانی اور امریکی سرمایہ کاروں کے درمیان مشترکہ منصوبوں اور تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔
چونکہ دونوں ممالک اقتصادی تعاون کی راہیں تلاش کر رہے ہیں، ان بات چیت کا مقصد ٹیکسٹائل کی صنعت کو تقویت دینا، دو طرفہ تجارت کو مضبوط بنانا اور پائیدار اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرنا ہے۔

ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری نے انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کے لیے ایک پالیسی روڈ میپ تیار کیا ہے جس میں 2029 تک ٹیکسٹائل کی برآمدات کو 50ارب ڈالرز تک بڑھانے کا ہدف بنایا گیا ہے اور مسابقتی تجارتی دو طرفہ کنٹریکٹس مارکیٹ (سی ٹی بی سی ایم) کو چلاتے ہوئے اور صنعتی صارفین کیلئے شمسی نیٹ میٹرنگ کی حد کو 1ایم ڈبلیو سے 5ایم ڈبلیو تک بڑھاتے ہوئے 1.5-1 سینٹ فی یونٹ کے وہیلنگ چارج کے ساتھ بی ٹو بی پاور کنٹریکٹس کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل کے نظام پر زور دیا ہے۔

ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو متحرک کرنے کی ایک پرجوش کوشش میں، پاکستان میں سندھ حکومت نے کراچی گارمنٹ سٹی کو جدید بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا ہے۔ یہ صنعتی اسٹیٹ، جو ویلیو ایڈڈ ٹیکسٹائل مصنوعات کی تیاری کے لیے وقف ہے، 300 ایکڑ پر پھیلی ہوئی ہے اور ایک اہم تبدیلی سے گزرنے والی ہے۔ اس اقدام کا مقصد شہر کی حدود میں آب و ہوا کے موافق صنعتی یونٹس اور واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی ترقی کو فروغ دینا ہے۔

حیدرآباد میں جمعرات کو کپاس کی فصل کے حوالے سے WWF اور محکمہ زراعت سندھ کے تعاون سے منعقد کئے گئے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سندھ کے ڈائریکٹر جنرل ایگریکلچر (ڈی جی) منیر احمد جمانی کہا کہ کپاس کی فصل پاکستان کے صنعتی شعبے کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن اس کی فصل میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے کیونکہ کاشتکار دوسری فصلوں کا رخ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ کپاس کے کاشتکاروں کو مناسب قیمت نہیں مل رہی تھی جس کی وجہ سے وہ متبادل فصلوں کا انتخاب کرنے پر مجبور ہو رہے تھے۔
دریں اثنا ساجد محمود نے ایک بیان میں کہا کہ شدید موسمی حالات، پانی کی کمی، کیڑے مکوڑوں خاص کر سفید مکھی اور گلابی سنڈی کے حملوں کی وجہ سے پاکستان میں کپاس کی فی ایکڑ پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں سالہا سال سے فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نہیں ہورہا ہے۔ سال 2014-15میں ملک میں 1 کروڑ42 لاکھ پیدا ہونے والی کپاس کی گانٹھیں آج بمشکل 85لاکھ گانٹھ تک رہ گئی ہیں۔ کاشتکار کے پاس کاشتکاری کے علاوہ کوئی اور متبادل ذرائع آمدن نہیں ہے۔

اس لئے ان کے مسائل کا حل دانش مندی سے تلاش کیا جائے تاکہ کاشتکاری کو منافع بخش بنایا جاسکے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کپاس کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائے۔ ہماری اوسط فی ایکڑ پیداوار جو کہ 700کلوگرام فی ایکڑ سے لے کر 750کلوگرام فی ایکڑ ہے اس کو ہم جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے ڈبل یعنی 1500کلوگرام فی ایکڑ تک لے جا سکتے ہیں۔

صرف گلابی سنڈی کے حملہ سے ہمیں سالانہ 1.5سے 2.0ملین کپاس کی گانٹھوں کا نقصان ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کپاس کی ایک لاکھ ملین گانٹھ میں اضافہ کا مطلب0.5فیصد جی ڈی پی میں اضافہ ہے اور ایک ملین کپاس کی گانٹھ کی قیمت تقریباایک ارب ڈالر بنتی ہے۔

تحقیق ایک ایسا شعبہ ہے جس کا ثمر فوری طور پر انسان کو نظر نہیں آتا۔ اس کے نتائج دورس ہوتے ہیں۔ وہی قومیں ترقی کر تی ہیں جو ریسرچ کو بھی اتنی اہمیت دیتی ہیں جتنا کہ لوگوں کی فلاح و بہبود سے وابسطہ دوسرے پروگرامز کو دیتی ہیں۔ ضرروت اس امر کی ہے کہ حکومت کپاس کے ریسرچ اداروں اور ان میں کام کرنے والے سائنسدانوں کی طرف خصوصی توجہ دے ان کے مالی و انتظامی مسائل کے حل کے لئے فوری ایکشن پلان پر عمل کیا جائے۔

Related Posts