پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ترسیلات زر آمدنی اور زرمبادلہ کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ تاہم، حالیہ مہینوں میں، پاکستان کو ترسیلات زر میں کمی واقع ہوئی ہے، جو ملکی معیشت اور ادائیگیوں کے توازن کے لیے ایک چیلنج ہے۔
جولائی سے نومبر 2023 کے دوران ترسیلات زر کی آمدنی میں کمی دیکھی گئی، جو کہ 2024 میں 11,044.7 ملین ڈالر تک گر گئی جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 12,317.8 ملین ڈالر کے مقابلے میں 10.3 فیصد کمی کی نمائندگی کرتی ہے۔
ورلڈ بینک نے پاکستان کو ترسیلات زر میں کمی کی توقع ظاہر کی ہے، 2023 میں 24 بلین ڈالر کی کمی اور 2024 میں 10 فیصد کمی کے ساتھ مزید 22 بلین ڈالر سے نیچے آنے کا امکان ہے۔ جس سے قرض میں اضافہ ہوجائے اور عوام کے اعتماد میں بھی کمی واقع ہوگی۔
اس کمی میں مختلف عوامل کارفرما ہیں، بشمول بڑی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، تارکین وطن کو سرکاری چینل استعمال کرنے کی ترغیب میں کمی۔ مزید برآں، غیر رسمی رقم کی منتقلی کے ذرائع، جیسے کہ حوالا اور ہنڈی کی ترجیح بہتر شرح مبادلہ اور سہولت کی وجہ سے ہوتی ہے، اگرچہ سرکاری ریکارڈ اور ٹیکس سے بچ جاتے ہیں۔
ترسیلات زر میں کمی کے ملکی معیشت پر سنگین اثرات مرتب ہوتے ہیں، کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافہ، زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، بیرونی قرضوں میں اضافہ اور ملکی کھپت اور سرمایہ کاری میں کمی۔ اس رجحان کو تبدیل کرنے کے لیے، حکومت کو ایسی پالیسیاں نافذ کرنا ہوں گی جو باضابطہ ترسیلات زر کی حوصلہ افزائی کریں۔
ترسیلات زر لاکھوں پاکستانیوں کے لیے ایک اہم لائف لائن ہیں، اور اقتصادی ترقی اور ترقی کا ایک اہم محرک ہیں۔ چیلنجوں سے نمٹنا اور ترسیلات زر کی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا زیادہ مالی استحکام اور خوشحالی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔