پاکستان میں ایوان بالا کے انتخابات کل ہونے جارہے ہیں، سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر رائے دیدی ہے، عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ سینیٹ انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعے ہوں گے،بیلٹ پیپر کا خفیہ ہونا حتمی نہیں، الیکشن کمیشن 218 کے تحت حاصل اختیارات کے مطابق جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے شفاف انتخابات کا انعقاد یقینی بنا سکتا ہے، الیکشن کمیشن شفاف الیکشن کے لیے تمام اقدامات کرسکتا ہے،تمام ادارے الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کے پابند ہیں، الیکشن کمیشن کرپشن کے خاتمے کیلئے تمام ٹیکنالوجی کا بھی استعمال کرسکتا ہے۔
ملک میں سینیٹ انتخابات کےلئے سیاسی گٹھ جوڑ اور جوڑ توڑ کے باعث سیاست کے بحر متلاطم میں مزید شدت پیدا ہوگئی ہے، حکومت مخالف اتحاد اپنے دعوؤں کے مطابق حکومت کو ہر حال میں گھر بھیجنے کےلئے لانگ مارچ سمیت تمام آپشن پر کام کرتے ہوئے حکومت مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے اور تمام تر انتشار کے باوجود حکومت مخالفت میں متفق و متحد نظر آتا ہے ۔
یوں تو کراچی سے سانگھڑ، تھرپارکر اور پنجاب میں ضمنی انتخابات میں حکومت مخالف اتحاد میں شامل جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی ہی نشستوں پر دوبارہ کامیابی حاصل کرلی ہے لیکن خیبر پختونخوامیں نوشہرہ کی سیٹ ن لیگ نے پی ٹی آئی سے چھین لی ہے، ان نتائج کی روشنی میں حکومت کافی دباؤ کا شکار ہے اور اپوزیشن اسے حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد قرار دیکر گرم لوہے پر چوٹ مارنے کےلئے زیادہ پرجوش اور پرامید ہے۔
دوسری جانب حکومتی اتحاد خصوصاً پی ٹی آئی میں سینیٹ الیکشن کے حوالے سے ٹکٹوں کی تقسیم میں ہی انتشار نظر آیا اور پی ٹی آئی کے اندر سے ہی مخالفت عروج پر رہی، سندھ میں فیصل واؤڈا کی نامزدگی ہو یا بلوچستان میں عبدالقادر بلوچ کو ٹکٹ دینے کا معاملہ پارٹی اراکین نے کھل کر مخالفت کی جبکہ اسلام آباد سے حکومتی امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی نامزدگی پر بھی پارٹی میں بہت مخالفت پائی گئی یہاں تک کہ کراچی کے حلقہ این اے 245 سے منتخب رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عامر لیاقت نے بزعم خود علی الا علان کہا ہے کہ وہ سینیٹ الیکشن میں عبدالحفیظ شیخ کو ووٹ نہیں دینگے ۔
سندھ میں سابق وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے رہنماء لیاقت جتوئی نے 35 کروڑ کے عوض سیف اللہ ابڑو کو پارٹی ٹکٹ دیئے جانے کا الزام عائد کیا جبکہ بلوچستان میں سردار یار محمد رند بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں، یوں حکمراں جماعت کےلئے 3 مارچ کو ہونیوالے ایوان بالا کے انتخابات حکومت کو درپیش چیلنجوں میں سے اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور خصوصاً اسلام آباد کی نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے مقابلے میں سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار کی حیثیت سامنے لانا سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی آصف زرداری کی سیاسی بساط پر بچھائی گئی بڑی شاطرانہ چال کے طور پر دیکھی جارہی ہے ۔
دارالحکومت سے سینیٹ کی نشست پر قومی اسمبلی کے ارکان سینیٹر منتخب کرتے ہیں جبکہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کو یقیناً اکثریت حاصل نہیں ہے، سینیٹ الیکشن خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہونے کے باعث جوڑ توڑ اور ارکان کی خرید و فروخت کے ذریعے ماضی کی طرح کوئی بھی اپ سیٹ ہوسکتا ہے، ماضی میں ارکان کی لگنے والی منڈی سیاست سے حیران کن نتائج سامنے آتے رہے ہیں اور 2018 میں ایوان بالا کے انتخابات میں بڑے بڑے اپ سیٹ ہوئے۔
2018 میں ہی ہارس ٹریڈنگ کے الزام میں پی ٹی آئی نے اپنے 20 ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نکالا، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو سینیٹ انتخابات میں دھچکا لگا، پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود مطلوبہ تعداد میں نشستیں حاصل نہ کر پائی جبکہ پیپلز پارٹی کے اراکین صوبائی اسمبلی کی تعداد صرف سات تھی اور وہ دو نشستیں جیتنے میں کامیاب رہی۔
بلوچستان کے سینیٹ الیکشن میں ن لیگ کو غیر متوقع شکست ہوئی غرضیکہ سینیٹ کے اب تک ہونیوالے انتخابات غیبی امداد کے ذریعے اکثریت کی ناکامی اور اقلیت کی کامیابی کی مثالیں اراکین اسمبلی کے بکاؤ ہونے پر دلالت کرتی ہیں اسی تناظر میں وزیر اعظم عمران خان سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے جس کی اپوزیشن بھرپور مخالفت کرتی رہی جبکہ ماضی میں اپوزیشن اتحاد میں شامل بڑی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی خود سینیٹ الیکشن اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی حامی رہی ہیں اور اب صرف عمران خان مخالف ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق اپوزیشن جوڑ توڑ اور اپنی دولت کے بل بوتے پر سینیٹ الیکشن میں حکومت کی عددی برتری ختم یا کم کرنے کےلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنے کےلئے تیار اور مصروف عمل ہے اور اس کےلئے خفیہ بیلٹ کا طریقہ انتخاب ہی اس کےلئے معاون و مددگار ثابت ہوگا۔
یوں کل 3 مارچ کو ہونیوالا سینیٹ الیکشن حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے اندرونی انتشار کے باعث وزیر اعظم عمران خان اور حکومت کےلئے اس وقت سب سے بڑا سیاسی امتحان ہے اور اس الیکشن میں دیگر نامزد ارکان کا منتخب ہونا نہ ہونا موجودہ سیاسی صورتحال میں اتنی اہمیت نہیں رکھتا جتنا حکومتی امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی کا انتخابی معرکہ کا نتیجہ حکومت کے مستقبل کا تعین کریگا۔
عددی لحاظ سے تو ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی کامیابی یقینی ہے لیکن سیاسی گھوڑوں کی خرید و فروخت میں اگر سیاست کے شاطر کھلاڑی گیلانی کو نشست خرید کر دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ حکومت کےلئے خطرے کی گھنٹی سے کم نہ ہوگا اور یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کا مطلب ہوگا ،ارکان قومی اسمبلی کا وزیر اعظم عمران خان پر عدم اعتماد اور اس کے بعد حکومت کے چراغوں میں روشنی نہیں رہے گی اور وزیر اعظم پر قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے سے قبل ہی اراکین اسمبلی کا عدم اعتماد اور اپوزیشن کی فتح ہوگی لیکن یہ عدم اعتماد وزیر اعظم پر تو ہوگا بلکہ موجودہ سیاسی اور انتخابی نظام پر بھی سوالیہ نشان ہوگا ۔
پاکستان میں چاروں صوبوں کو وفاقی ایوان میں برابر نمائندگی دینے کےلئے 1973ءمیں سینیٹ کی تشکیل کی گئی اس کے ممبران کے چناؤ میں اسمبلیوں کے اراکین کا اہم کردار ہوتا ہے لیکن سینیٹ الیکشن کے دوران جس طرح ارکان کی خرید و فروخت ہوتی ہے اس میں نوٹ کے بدلے ووٹ کے باعث خفیہ رائے شماری کے غیر متوقع نتائج سامنے آتے ہیں جس سے نہ صرف ایوان کا تقدس پامال ہوتا ہے بلکہ اراکین بے توقیر ہوکر بے وقعت ہوجاتے ہیں۔