پاکستان میں گزشتہ کچھ دہائیوں سے دہشت گردی ایک مستقل مسئلہ بنتا جارہا ہے، خصوصاً 2000ء کے بعد سے اس میں تیزی آئی۔ اب ایسا لگتا ہے کہ صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔
وفاقی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے انسدادِ دہشت گردی کی کاوشوں اور جان کی قربانیوں کے باوجود دہشت گردی کے واقعات بڑھے ہیں جس سے عوام میں خوف و ہراس جنم لے رہا ہے۔
ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں پولیس نے دہشت گردی کے حملوں کو کامیابی سے روکا۔ حالیہ مثالیں ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور دیگر مقامات پر پولیس اسٹیشن کے علاوہ دیگر مختلف مقامات پر دہشت گردی ناکام بنانے میں کے پی پولیس کی کاوشیں ہیں جس کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔
ملک کے شہریوں کی حفاظت کیلئے پولیس کی بہادری اور لگن ہم سب کیلئے مشعلِ راہ ہونی چاہئے تاہم بد قسمتی سے پولیس کی کامیابی دہشت گردی کی وجہ سے ہلاکتوں کو روکنے کیلئے کافی ثابت نہیں ہوپائی جبکہ دہشت گردی کے اثرات تباہ کن ہیں۔
بے شمار خاندان دہشت گردی کا شکار ہو کر آج بھی اپنے پیاروں کی یاد میں سوگوار ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت دہشت گردی کے مسئلے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ مستقبل میں دہشت گردی روکنے کیلئے سنجیدہ اقدامات وقت کی ضرورت بنتے جارہے ہیں۔
حال ہی میں چیئرمین پی ٹی آئی و سابق وزیر اعظم عمران خان نے دہشت گردی میں اضافے کے باعث سکیورٹی فورسز کے کردار پر سوال اٹھایا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ان بیانات سے ایک نئی گرماگرم بحث چھڑ گئی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے درست کہا جبکہ بہت سے افراد نے عمران خان کی مخالفت بھی کی۔ سیاسی بحث سے قطعِ نظر یہ واضح ہے کہ دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے بڑا خطرہ ہے جس سے حکومت کو آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا۔
یاد رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ دہشت گردی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ ملکی اداروں کی ساکھ اور استحکام کو بھی متاثر کرتی ہے۔ حکومت کو سکیورٹی پالیسی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو شامل کرنا چاہئے تاکہ دہشت گردی کی بنیادی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا تدارک کیاجاسکے۔
قومی سلامتی کو اوّلین ترجیح دینے سے زیادہ ضروری کوئی اور محاذ نہیں ہے۔ حکومت کو دہشت گردی کا ایسا حل تلاش کرنا چاہئے جو پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور جان و مال کی سلامتی کو ہر حال میں یقینی بنائے۔