پاکستان کیلئے اولمپک کا گولڈ میڈل جیتنا میرا سب سے بڑا خواب ہے۔سعدی عباس جلبانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان کیلئے اولمپک کا گولڈ میڈل جیتنا میرا سب سے بڑا خواب ہے۔سعدی عباس جلبانی
پاکستان کیلئے اولمپک کا گولڈ میڈل جیتنا میرا سب سے بڑا خواب ہے۔سعدی عباس جلبانی

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان میں کراٹے کنگ کہلانے والے سعدی عباس جلبانی نے متعدد مرتبہ پاکستان کیلئے گولڈ میڈلز جیتے اور قومی و بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کیا۔سعدی عباس جلبانی نے بے شمار اعزازات جیتے اور کراٹے کے چیمپین بن کر بھارت اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں اپنے فن کے جوہر دکھائے۔

وطنِ عزیز کیلئے اولمپک کا گولڈ میڈل لانا سعدی عباس جیلانی کا سب سے بڑا خواب ہے جس کی تعبیر کیلئے انہوں نے بھرپور عزم کا اظہار کیا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: کراٹے کا شوق کس عمر میں اور کیوں پیدا ہوااور آپ کا آئیڈیل کون ہے ؟

سعدی عباس جلبانی: کراٹے کا شوق بذاتِ خود مجھے نہیں تھا، میرے والد بروسلی سے متاثر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا کوئی بیٹا بروسلی کی طرح کراٹے کے جوہر دکھائے۔ میری عمر اس وقت صرف 8 سال تھی جب میں نے کراٹے شروع کیے۔ فلم اسٹار اور مارشل آرٹسٹ بروسلی میرے والد کے آئیڈیل تھے۔ 

ایم ایم نیوز: ایک عام بچے سے کراٹے چمپئن بننے کا سفر کیسا رہا اور کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ؟

سعدی عباس جلبانی: ایک عام بچے سے کراٹے چیمپین بننے کا سفر اتنا آسان نہیں تھا۔ شروع میں اسے بطور مشغلہ اختیار کیا۔ درسی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیوں کے طور پر کراٹے شروع کیے۔ یہ سفر اسی طرح جاری رہا۔ کلب میں میں نے کراٹے بہت اچھے طریقے سے سیکھے۔ بہت سے لوگوں سے رہنمائی بھی ملی۔ جب میں نے براؤن بیلٹ حاصل کی تو میں نے کراٹے چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ گھر والوں نے کہا کہ پہلے بلیک بیلٹ حاصل کریں، پھر چھوڑ دیں۔ میں نے جب بلیک بیلٹ حاصل کی تو ہمارے کلب کا ایک لڑکا محمد رمضان میرے سامنے تھا جو بے حد اچھا کھلاڑی تھا۔ میں نے سوچا کہ میں اس سے بہتر بنوں گا۔ پھر میں سندھ کا وہ پہلا کھلاڑی بنا جس نے کراٹے میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ مشکلات کی داستان بے حد طویل ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے علاوہ کسی اور سپورٹ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔

مشکلات کیلئے مجھے ایک کتاب لکھنی پڑے گی۔ ہاسٹل ، کھانا پینا، سفر اور کھیل سمیت ہر میدان میں ایک سے ایک نئی مشکل درپیش تھی۔ پھر بھی مجھے کامیابیاں ملتی رہیں۔

ایم ایم نیوز:  دنیا کے کئی اعزازات حاصل کرنے کے بعد کوئی ایسا خواب جو ابھی پورا نہ ہوا ہو ؟

سعدی عباس جلبانی: الحمد للہ پاکستان کیلئے میں نے سارے اعزازات حاصل کیے ہیں جن میں جنوبی ایشیاء، کامن ویلتھ، اسلامک گیمز وغیرہ سب شامل ہیں، میرے پاس ورلڈ کا ٹائٹل نہیں ہے جس کا خواب ابھی تک پورا نہیں۔ میری پوری کوشش ہوگی کہ میں پاکستان کیلئے اولمپک کا گولڈ میڈل لوں۔ یہ پاکستانی تاریخ میں کسی فرد کا پہلا گولڈ میڈل ہوگا۔ 

ایم ایم نیوز: ۔لیاری جیسے پسماندہ علاقے کا نام پوری دنیا میں متعارف کرانے پر آج کیسا محسوس ہوتا ہے ؟

سعدی عباس جلبانی: لیاری کا میں کوئی خاص بندہ نہیں جس نے پوری دنیا میں نام روشن کیا ہو، اس سے پہلے بھی بڑے بڑے نام گزرے ہیں۔ مجھ سے پہلے حسین شاہ اور جان محمد سمیت بہت سے کھلاڑیوں نے پاکستان کیلئے میڈلز حاصل کیے ہیں۔ ان میں اگر میرا نام بھی شامل ہوتا ہے تو بہت فخر محسوس ہوتا ہے۔ لیاری ایک چھپا ہوا جوہر ہے۔ حکومتِ پاکستان اور نجی شعبے کو وہاں سے ہیرے تلاش کرنے چاہئیں۔ موقع ملنے پر لیاری والے پوری دنیا سے پاکستان کیلئے میڈلز لاسکتے ہیں۔ 

ایم ایم نیوز: جنوبی ایشیاء میں سب سے پہلے چمپئن بننے کے بعد احساسات کیا تھے ؟

سعدی عباس جلبانی: جنوبی ایشیاء کا میں وہ پہلا کھلاڑی ہوں جس نے ایشین کراٹے چیمپین شپ میں گولڈ میڈل جیتا۔ یہ پورے جنوبی ایشیاء کیلئے بڑا اعزاز تھا، جس پر دیگر ممالک سے بھی مجھے مبارکباد ملی ہے۔ آپ ایسی شہرت دنیا بھر میں کروڑوں اربوں روپے خرچ کرکے بھی حاصل نہیں کرسکتے۔ 

ایم ایم نیوز: پاکستان میں حکومتی سطح پر کراٹے یا دیگر کھیلوں کو زیادہ پذیرائی کیوں نہیں دی جاتی ؟

سعدی عباس جلبانی: بدقسمتی سے پاکستان میں کھیلوں کو صنعت کا درجہ نہیں دیا جاتا جبکہ پورے ملک میں یہ شعبہ سرمایہ کاری لا سکتا ہے، ملکی ترقی کیلئے بے حد اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ ملک کا نام روشن کیا جاسکتا ہے۔ بڑی بڑی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ امریکا یا کینیڈا کی مثال ہمارے سامنے ہیں۔ اربوں ڈالرز کی آمدنی ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں صرف کرکٹ کو ہی کھیل سمجھا جاتا ہے، ہاکی جیسے قومی کھیل کو بھی نظر انداز کردیا گیا۔ حکومتی سطح پر پالیسی اچھی ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہے۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا اور ایک لائحۂ عمل بنانا ہوگا کیونکہ کھیلوں کے ذریعے پاکستان کا تاثر پوری دنیا پر زبردست ہوسکتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: چمپئن ہونے کے باوجود حکومتی سطح پر نظر انداز کرنے پر آپ کو کیسا محسوس ہوا ؟

سعدی عباس جلبانی: حکومتی سطح پر ہاکی کو بھی پذیرائی نہ مل سکی، یہ پہلے کہہ چکا ہوں۔ کھلاڑیوں کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں ہوتے، اس لیے وہ حکومت کی طرف دیکھتے ہیں کہ انہیں سپورٹ کیا جائے۔ اس سے آنے والی نسلوں کو بھی مدد ملے گی۔ جب مجھ سے نئے لڑکے سوال کرتے ہیں کہ سعدی بھائی، آپ کو حکومت نے کیا انعام دیا؟ تو مجھے بڑا افسوس ہوتا ہے جب میں انہیں کچھ نہیں بتا سکتا۔ اگر میں انہیں یہ بتا دوں کہ مجھے نظر انداز کیا گیا تو وہ اس جوش و جذبے سے محنت نہیں کر پائیں گے جیسا کہ انہیں کرنی چاہئے۔ کراٹے یا مارشل آرٹ میں مجھ سے زیادہ ایوارڈز کسی کے پاس نہیں لیکن مجھے کبھی صدارتی اعزاز  نہیں دیا گیا۔ دو تین بار حکومت کے پاس میرا نام گیا بھی لیکن خاندانی پس منظر یا اثر رسوخ نہ ہونے کے باعث میں کوئی سرکاری اعزاز نہ جیت سکا، کیونکہ میرے پاس کوئی سفارش نہیں ہے۔ بہت سے پست سطح کے لوگ ایسے اعزازات جیت چکے ہیں، لیکن مجھے پاکستان کی نمائندگی کرنے پر فخر محسوس ہوتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: ملک میں کھیلوں کے فروغ اور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے کیا اقدامات اٹھانے چاہئیں ؟

سعدی عباس جلبانی: حکومتی سطح پر پالیسیوں پر عمل درآمد صاف و شفاف انداز میں ہونا چاہئے۔ ہمارے مستقبل کے منصوبہ جات واضح ہونا چاہئے۔ منصوبوں پر عمل نہ ہونا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ آپ ایشین گیمز، کامن ویلتھ گیمز اور اولمپک میں پلانز بنائیں۔ حکومت ہو یا نہ ہو، ان پر عمل درآمد ہونا چاہئے۔ جنگِ عظیم اول اور دوم کے دوران بھی کھیلوں کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر فنڈز روک دئیے جاتے ہیں اور کھیل یا تو بند ہوجاتے ہیں یا بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ ہمیں ہر کھیل کیلئے بہترین حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ یہ سب ایک طرح کی تعلیم ہے جس کیلئے ہمیں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے والے لوگوں کو سامنے لانا ہوگا۔ ایک مثال سامنے رکھیں۔ سن 2004ء میں میں بہت چھوٹا تھا، جب اسلام آباد سیف گیمز میں جس نے گولڈ میڈلز لیے، اسے 10 لاکھ روپے دئیے گئے۔ میں نے یہ ٹی وی پر دیکھا۔ 2 سال بعد میں پاکستان ٹیم میں گیا۔ میں نے سری لنکا میں ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل جیتا۔ مجھے صرف 2 لاکھ روپے دئیے گئے۔ اگر آپ کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کریں گے تو ملک کا نام روشن کرنے پر زیادہ سے زیادہ کام ہوگا۔ 

ایم ایم نیوز: لیاری سے نکل کر پوری دنیا میں گھومے، سب سے زیادہ کونسی جگہ اور کیوں پسند ہے ؟

سعدی عباس جلبانی: مجھے دنیا بھر میں سیر و تفریح کا بے حد شوق تھا۔ اللہ نے مجھے ہر براعظم دکھایا۔ ہر ملک میں پسند ناپسند کی مختلف چیزیں ہوتی ہیں۔ مجھے جاپان بے حد پسند ہے کیونکہ وہاں نظم و ضبط ہے اور لوگ وہاں جھوٹ نہیں بولتے۔ جو کام کرتے ہیں، وہ 100 فیصد اچھے طریقے سے کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان دنیا کا طاقتور ترین ملک نظر آتا ہے۔ مسلمان ہم ہیں لیکن اسلام کے تمام اصول انہوں نے خود پر لاگو کیے ہوئے ہیں سوائے کلمہ پڑھنے کے۔ مجھے جاپان بے حد پسند آیا۔ 

ایم ایم نیوز: اپنی وہ عادات بتائیں جن کی وجہ سے آپ فن بلندیوں پر پہنچے ؟

سعدی عباس جلبانی: میں نے اپنی زندگی میں کچھ قواعد بنائے تھے۔ میں نے خود سے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔ خاص طور پر تربیت کے معاملے میں میں بہت سخت رہا۔ میں سب کا احترام کرتا ہوں اور سب سے اچھے طریقے سے گفتگو کرتا ہوں۔ چاہے کوئی مجھ سے چھوٹا ہو یا بڑا ہو، سب کی عزت کرتا ہوں۔ میں نے اپنی انا کو تعلیم پر فوقیت نہیں دی۔ میں نے کبھی سیکھنے سے شرم نہیں کی۔ جس سے جو ممکن ہوا، سیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے بے حد نوازا اور میں نے ایسی ہی عادات کی بدولت بے شمار ٹائٹلز جیتے اور ملک کا نام روشن کیا۔ 

ایم ایم نیوز: کیا کراٹے صرف مخصوص لوگ ہی کھیل سکتے ہیں یا کوئی بھی کراٹے کا ماہر بن سکتا ہے ؟

سعدی عباس جلبانی: کراٹے میرے حساب سے ہر ایک کیلئے ہوتے ہیں چاہے کوئی 70 سال کا بوڑھا ہو یا بچہ ہو۔ خاص طور پر بچے کراٹے ضرور سیکھیں۔ کراٹے سے آپ زندگی کے بنیادی اصول دیکھتے ہیں جن میں نظم و ضبط، دوسروں کا ادب و احترام کرنا، وقت کی پابندی اور عزتِ نفس شامل ہیں۔ یہ ہر کراٹے ایتھلیٹ اپنے اپنے کلب میں ضرور سیکھتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: پاکستان میں کھیلوں کے زوال کی وجہ کیا ہے ؟

سعدی عباس جلبانی: کھیلوں کے قوانین ضرور ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، یہی کھیلوں کے زوال کی وجہ ہے۔ نجی سیکٹر بھی صرف کرکٹ کو سپورٹ کرتا ہے۔ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ ہمارے نوجوان اور غریب طبقہ کھیلوں کے ذریعے ہی اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہر غریب بچہ کھیلوں کی طرف آئے گا۔ زوال کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کبھی کھیلوں کی طرف توجہ نہیں دی۔ حکومتوں نے کھیلوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا، سوائے کرکٹ کے۔ 

ایم ایم نیوز: پاکستانی نوجوان کھیلوں کی بجائے دیگر سرگرمیوں کو کیوں اہمیت دیتے ہیں ؟

سعدی عباس جلبانی: میرا جواب وہی ہوگا کہ پاکستانی نوجوان یہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں کس بات سے فائدہ حاصل ہوگا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک ہی کھیل کو اہمیت دی جاتی ہے تو یہاں مقابلہ بہت سخت ہے۔ کرکٹ کے علاوہ دیگر کھیلوں کو اہمیت ہی نہیں دی جاتی تو وہ ان پر بھی توجہ نہیں دیتے۔ مشغلے کی حد تک کھیلوں کو توجہ دی جاتی ہے۔ جب  وہ کھیلوں کو اہمیت دیتے ہیں تو آگے ہمارے نظام کو دیکھ کر حوصلہ شکنی کا شکار ہوجاتے ہیں، اس لیے صرف ملازمت کی حد تک ہی کھیلوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ نوجوان طبقہ کھیلوں کی بجائے دیگر سرگرمیوں میں مصروف رہتا ہے۔ 

ایم ایم نیوز: نئے آنیوالے کھلاڑیوں کو کیا مشورہ دینا چاہیں گے ؟

سعدی عباس جلبانی: نوجوان نسل کو یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ کھیل میں بھرپور توجہ کے ساتھ آئیں۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے مشاورت ضرور کریں۔ اپنے سینئرز، ماں باپ یا جس سے بھی آپ انسپائرڈ ہیں، ان سے مشاورت کریں۔ ایسے لوگ آپ کو فیصلہ سازی میں مدد دیں گے۔ اپنی تعلیم پر بھی توجہ دیں۔ جوانی میں ہی آپ کو محنت کرنی ہے، تبھی آپ توازن برقرار رکھ سکیں گے۔ تعلیم اور کھیل دونوں پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اگر یہاں ناکام ہو گئے تو کوئی ایک چیز کامیاب ہوگی یا پھر دونوں ہی نہیں ہوسکیں گی۔ قدم قدم پر کامیاب افراد سے مشورہ کریں اور مشوروں کا بھی تجزیہ کریں۔ اگر مجھے ایک راستہ کامیاب نہ لگے تو دوسرا بھی اختیار کرسکتا ہوں۔ ہمیشہ منصوبہ بندی کے ساتھ کام کریں۔ ہر کام ایمانداری سے کریں۔ اپنے ہر کام پر محنت کریں اور اپنا 100 فیصد زور لگا دیں، نتائج اللہ تعالیٰ پر چھوڑدیں۔ وہ بہتر کرے گا۔ 

ایم ایم نیوز: مستقبل کا کیا منصوبہ ہے کیسے پورا کرینگے ؟

سعدی عباس جلبانی: مستقبل میں یہی منصوبہ ہے کہ پاکستان میں مختلف کھیلوں کی سرگرمیاں شروع کروں۔ کراٹے سب سے پہلے شروع کروں گا۔ میں کوشش کروں گا کہ جو مجھے نہیں ملا، آئندہ نسلوں کو ضرور ملے۔ ایک ایسا محکمہ بنانا چاہوں گا کہ کسی بھی بچے کے اندر صلاحیتوں کا جائزہ لیا جاسکے۔ ہم نے کھیلوں کوسائنس سے دور کر دیا ہے، اس لیے ہم 60ء کی دہائی میں جی رہے ہیں۔ ملک میں بے پناہ صلاحیتوں کے حامل افراد موجود ہیں۔ اس ٹیلنٹ کا استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم نے یہ ٹیلنٹ استعمال کر لیا تو پاکستان ہر سطح پر دنیا کے ہر ملک کے مقابلے میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ یہی میرا مستقبل کا منصوبہ ہے۔ 

Related Posts