روس یوکرین تصادم اور تحفظِ خوراک

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

دُنیا بھر میں بھوک اور شدید معاشی کساد بازاری پھیلتی جارہی ہے۔ جان بوجھ کر یا غیر ارادی طور پر اس کا ادراک نہ کرتے ہوئے امریکہ یوکرین کو مسلسل فوجی امداد کے ذریعے روس  اور یوکرین کے بحران کو ہوا دیتا نظر آتا ہے۔

گزشتہ ہفتے ایک قانون پر دستخط کے بعد یہ طے ہوا کہ امریکی  صدر جو بائیڈن بھاری فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں کے ساتھ یوکرین کی مدد کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ یہ مفت میں نہیں ہے۔ یوکرین کو اس کا بدلہ چکانا پڑے گا، اگر یہ نہ کرسکا تو اسے دوسرے ممالک کی طرح امریکا، نیٹو اور یورپی یونین کی معاشی غلامی قبول کرنا ہوگی۔ میں نے گزشتہ ہفتے بھی اس حوالے سے اپنی رائے دی تھی۔

دو بری خبروں میں سے پہلی یہ ہے کہ امریکہ نے چند روز قبل یوکرین کو فوجی امداد کی ایک اور بھاری کھیپ روانہ کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکا روس کو “کمزور” کرنے کی کوشش میں نیٹو اور یورپی یونین کی حمایت سے یوکرین کی معیشت اور استحکام کو ختم کرنے کے لیے مکمل طور پرتیار ہے۔

آج سے تین ہفتے قبل امریکی وزیر دفاع لائڈ جے آسٹن نے یوکرین کے اسٹیلتھ دورے کے اختتام پر اعلان کیا کہ امریکہ کا مقصد روس کو اتنا “کمزور” دیکھنا ہے کہ اس کے پاس کسی پڑوسی ریاست پر حملہ کرنے کی طاقت نہیں رہے گی۔ واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ امریکا نے تنازعے کا رخ تبدیل ہونے کی تصدیق کی ہے یوکرین جنگ پر کنٹرول سے امریکی حکومت براہِ راست روس کے خلاف کھڑی ہوگئی ہے۔ 

وزیرِ دفاع لائیڈ جے آسٹن نے کہا کہ صدرجو بائیڈن نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ روس یوکرین جنگ کو امریکہ اور روس کے درمیان مقابلہ نہیں بنانا چاہتے۔ بلکہ وہ محض ایک چھوٹی اور جدوجہد کرنے والی جمہوریت کی مدد کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے سے کہیں زیادہ طاقتور پڑوسی کے قبضے کے خلاف اپنا دفاع کرے۔ نیٹو اور روس کے درمیان براہ راست تصادم تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، جس کو روکنے کے لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔ یہ بات انہوں نے مارچ کے آغاز میں جنگ کے صرف دو ہفتے بعد کہی۔ اور اب امریکہ یوکرین کو لامحدود فوجی امداد دیتا نظر آتا ہے جو کوئی اچھی علامت نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کو ایک بڑی جنگ، فوجی اور اقتصادی تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔

دوسری اور سب سے بری خبر یہ ہے کہ صرف 84 دنوں میں معاشی کساد بازاری کے آثار نمایاں اثرات کے ساتھ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ چار دہائیاں قبل امریکا نے افغانستان میں بھی اسی طرح جنگ چھیڑنے کا ارادہ کیا اور اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں شدید معاشی کساد بازاری اور خوراک کی قلت پیدا ہوئی۔ دوبارہ وہی گھناؤنا جرم کیا جا رہا ہے۔

یوکرین اور روس دونوں دنیا کے سب سے بڑے خوراک برآمد کنندگان میں سے ہیں۔ ان کے درمیان بحران نے عالمی غذائی تحفظ کو متاثر کرنا شروع کر دیا ہے۔ پاکستان جیسے کم ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک جو کہ یوکرین سے خوردنی اور اناج کی فصلوں کے درآمد کنندگان میں شامل ہیں، شدید اقتصادی بحران کا شکار ہیں۔ پسماندہ معاشرے سب سے زیادہ تکلیف میں ہیں، لیکن کسی کو کوئی پروا نہیں۔

یوکرین اور روس دونوں عالمی غذائی منڈیوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ اناج کی کئی اہم فصلوں کے خالص برآمد کنندگان ہیں جن میں سے گندم، مکئی اور جو کے علاوہ  سورج مکھی کا تیل بھی شامل ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے سبزیوں کے تیل میں سے ایک ہے۔ کچھ ممالک مثلاً پاکستان اور بھارت گھریلو خوراک کی فراہمی کے لیے سورج مکھی کے تیل کی درآمد پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں۔ گندم کی عالمی برآمدات کا ایک چوتھائی حصہ یوکرین اور روس سے آتا ہے۔ عالمی مکئی کا پانچواں حصہ اور جو بھی روس سے آتی ہے۔ وہ تجارت شدہ سورج مکھی کے تیل کے تقریباً دو تہائی (64 فیصد) کا ذریعہ ہیں، جہاں عالمی برآمدات کا تقریباً نصف حصہ اکیلے یوکرین کا ہے۔

لاطینی امریکی ممالک کے لیے روس یوکرین بحران امریکی سرمایہ کاروں کے تعاون سے مارکیٹ میں اپنے کم معیار کے غذائی اجناس، خوردنی اشیاء اور تیل برآمد کرنے کا ایک موقع بن گیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خوراک برآمد کرنے والے دو بڑے ممالک کے خلاف خود کو دنیا کا آقا سمجھنے والے ممالک نے مسلح بحران پیدا کرنے کیلئے ایک سازش کی تھی۔ یوکرین کے لیے امریکی فوجی امداد نہ صرف یوکرینی قوم کو غلام بنائے گی بلکہ خوراک کا بحران غریب اور ترقی پذیر ممالک کو مزید غلام بنائے گا۔ روس پر پابندیاں عالمی برادری کی مشکلات میں اضافہ کریں گی۔

یہ بتاتے ہوئے بہت افسوس ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یوکرین کے بحران پر ووٹنگ میں صرف پانچ ممالک روس کے ساتھ کھڑے تھے۔ تقریباً 135 ممالک روس کے خلاف مضبوطی سے کھڑے تھے لیکن بظاہر صدر پیوٹن اور ان کے حامیوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ شاید دنیا کو یک قطبی رکھنے کے لیے روس کی اقتصادی اور فوجی طاقت کو روکنا اور اسے کم کرنا ضروری ہے۔ بہت ہی خوشگوار اور باہمی طور پر فائدہ مند دوطرفہ تعلقات کے باوجود چین کو اقوام متحدہ میں ووٹنگ سے پرہیز کرتے ہوئے دیکھنا عجیب محسوس ہوتا ہے۔

چین کا خیال تھا کہ بحران طویل نہیں ہوگا لیکن، یوکرین کو امریکی فوجی مدد کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا۔ غیر فوجی مداخلتوں پر یقین رکھنا اور کٹھ پتلیوں کو دو ماہ سے زیادہ کھیلتے دیکھنا بھی باعثِ حیرت ہے۔ جیو پولیٹیکل تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ چین نے آخر کار بہت ہوشیاری سے تنازعے میں قدم رکھا ہے۔ چین کے 40 سے زیادہ شہر کورونا صفر پالیسی کے لیے مکمل اور سخت لاک ڈاؤن کا سامنا کر رہے ہیں۔ چین نے یورپ کے لیے سپلائی چین میں خلل ڈال دیا جس سے توقع کی جاتی ہے کہ صارفی مصنوعات کی شدید کمی اور زیادہ افراط زر کے ساتھ پوری یورپی منڈی کو بھاری نقصان پہنچے گا۔ اس سے یورپی یونین ممالک کو بحران کی دگنی قیمت دینا ہوگی جبکہ وہ یوکرین کی مالی مدد کے لیے 15 ارب یورو جمع کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

چین میں صارفین اور کارپوریٹ مصنوعات تیار کرنے والی یورپی کمپنیوں میں سے تقریباً 23 فیصد نے چین سے باہر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عام یورپیوں کی قوت خرید مزید کم ہو جائے گی۔ یہ سپلائی کے مختصر وقفے کے بعد چین کو مزید تجارتی مواقع بھی دے سکتا ہے۔ طاقت کے کھیل میں اس کا مطلب جیسے کو تیسا لیا جاسکتا ہے۔

جنگ کی قیمت پر بھی نیٹو کی رکنیت میں اضافہ عوام کی جانوں سے زیادہ اہم ہے۔ اب پوری ذمہ داری دنیا کے سیاسی معیشت کے ماہرین، دانشوروں اور سماجی کارکنوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ امریکہ اور نیٹو کے سرمایہ دارانہ اور انتشاری عزائم کے بارے میں عوام میں شعور بیدار کریں۔ہم امید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ سب مل کر اربوں جانوں کے خلاف چند ارب پتیوں کے بے رحمانہ سرمایہ دارانہ عزائم کے خلاف آواز بلند کریں گے۔