لاک ڈاؤن پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک میں عید کے موقع پر لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد میں اضافہ ہواہے اگرچہ اس سال عید پہلے سے کہیں مختلف تھی لیکن لوگوں نے معاشرتی دوری کے قواعد کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئے اپنے دوستوں اور رشتہ داروں سے ملنے میں دریغ نہیں کیا۔

تازہ ترین اعداد وشمارکے مطابق کورونا وائرس سے متاثرہونے والوں کی تعداد 68ہزارسے تجاوز کر گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہونے کی امید ہے۔

ملک میں ہلاکتوں کی تعداد 1400 کو عبور کرچکی ہے جبکہ بہت سارے ماہرین کا خیال ہے کہ ہم ابھی عروج پر نہیں پہنچے ہیں۔

سندھ میں ایک دن میں سب سے زیادہ کیسزریکارڈ کئے گئے جب 1247 کیسزدرج کیے گئے جبکہ صوبے میں بھی سب سے زیادہ افراد کی ہلاکت کی اطلاع ملی ہے کیونکہ ایک ہی دن میں 38 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

پاکستان میں مقامی کیسز کی شرح 92 فیصد ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اب زیادہ تر کیسزہمارے درمیان پھیل رہے ہیں۔ ہسپتال بھرے ہوئے ہیں اور بہت سے اسپتال کورونا وائرس کے مزید مریضوں کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔

پاکستان نے اچانک اور ایک ایسے وقت میں لاک ڈاؤن ختم کیاجب انفیکشن کی تعداد بڑھ رہی تھی۔

ڈبلیو ایچ او نے متعلقہ ممالک کو متنبہ کیا تھا کہ وہ لاک ڈاؤن ختم کرنے میں جلدی نہ کریں بلکہ مرحلہ وار نرمی کریں۔

حکومت نے ابتدا میں مکمل لاک ڈاؤن لگانے سے بھی انکار کردیا تھا اور وقت سے پہلے ہی اسے اٹھا کریہ بتایا جارہا ہے کہ ہمیں وائرس کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔

لاک ڈاون پابندی کو کم کرنے کے لئے جلدی کرنے والے بہت سے ممالک میں کورونا وائرس کے معاملے میں ایک بار پھر تیزی آئی ہے۔

بھارت لاک ڈاؤن کو سختی سے نافذ کرنے میں ناکام رہا اور وہاں 5000 سے زیادہ اموات کے ساتھ کیسز کی تعداد173000 تک پہنچ چکی ہے۔ وہی صورتحال یہاں دیکھی جاسکتی ہے جہاں آنے والے وقتوں میں مزید کیسز بڑھنے کی توقع ہے۔

حکومت کے پاس لاک ڈاؤن پر ازسرنو غور کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔ حکمران پی ٹی آئی نے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کی ہے لیکن اسے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

یکم جون کو قومی رابطہ کمیٹی کا اجلاس ہورہا ہے جس میں سول اور عسکری قیادت اگلے لائحہ عمل کے بارے میں فیصلہ کرے گی۔

حکومت کا اصرار ہے کہ اگر حفاظتی احتیاطی تدابیر اور ایس او پیز پر عمل کیا جائے تو کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں احساس اور عوامی ذمہ داری کا فقدان ہے تو یہ مشکل ہے اورعوامی مقامات پر ان قواعد و ضوابط کا نفاذ ناممکن ہے۔

موجودہ صورتحال میں حکومت کے پاس سخت لاک ڈاؤن ہی حل ہے اوریہ کڑوی گولی نگل کرحکومت لاتعداد افراد کی زندگی کو بچاسکتی ہے۔

Related Posts