گزشتہ ماہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے پاکستان کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک بار پھر پاکستان میں اپنے حملے شروع کرنے کی دھمکی دی تھی۔ اس اعلان کے بعد ملک کے مختلف حصوں بالخصوص دو صوبوں یعنی خیبر پختونخواہ (کے پی کے) اور بلوچستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
اتوار کے روز، ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے بنوں میں سی ٹی ڈی سینٹر کے اندر موجود عملے کو یرغمال بنایا اور خود کو محفوظ طریقے سے افغانستان منتقل کرنے کا مطالبہ کیا، جب کہ ایک الگ دہشت گردانہ حملے میں لکی مروت میں چار پولیس اہلکار شہید ہوئے۔پیر کو شمالی وزیرستان میں خودکش حملے میں دو افراد جاں بحق اور چار زخمی ہوگئے۔ ٹی پی پی کی جانب سے جنگ بندی ختم کرنے کے اعلان کے بعد وزیرستان میں یہ دوسرا خودکش حملہ تھا۔ ٹی ٹی پی کے اعلان کے بعد کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے حملے روز کا معمول بن گئے ہیں۔
گزشتہ روز وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے اعتراف کیا کہ کے پی کے میں ایک سال میں 300 کے قریب دہشت گردی کے واقعات ہوئے جو کہ تشویشناک ہے۔ انہوں نے امن و امان کی خراب صورتحال کا ذمہ دار پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کو ٹھہرایا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت نے کے پی پولیس اور سی ٹی ڈی کی استعداد کار بڑھانے میں مدد کی پیشکش کی تھی لیکن صوبائی حکومت کی جانب سے آج تک کوئی جواب نہیں ملا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو سرحد پار عناصر کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اگرچہ کابل میں طالبان حکومت نے بارہا اعلان کیا ہے کہ کسی کو بھی افغانستان کی سرزمین پاکستان یا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ لیکن زمینی حقیقت بالکل مختلف ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پس پردہ افغان طالبان ٹی ٹی پی اور پاکستان میں ان کی سرگرمیوں کی مکمل حمایت کر رہے ہیں۔
بدقسمتی سے پاکستان میں کچھ لوگ اور کچھ سیاسی جماعتیں اب بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان دونوں کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ کے پی کے میں حکومت کرنے والی پارٹی بھی ان میں شامل ہے۔ ماضی میں اس نے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پشاور میں اپنا دفتر کھولنے کی پیشکش کی تھی۔
بنوں کے واقعے کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو اپنی آنکھیں کھولنی ہوں گی اور ٹی ٹی پی کے خلاف نہ صرف سخت ایکشن لینا ہوگا بلکہ کابل میں اس کے حامیوں کے ساتھ اس مسئلے کو بھی اٹھانا ہوگا کیونکہ پاکستانی عوام اور سیکیورٹی ادارے ملک میں دہشتگردی کی ایک اور لہر کے متحمل نہیں ہو سکتے۔