مزاحمت، مفاہمت اور منافقت

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک میں رو بہ عمل موجودہ ہائبرڈ نظام کا ایک زبردست فائدہ یہ ہوا ہےکہ اس نظام سے قبل ایک ابہام سا رہتا تھا کہ سیاستدانوں میں سے کون مکمل سیاسی آزادی کا قائل ہے اور کون اسٹیبلیشمنٹ کی مقرر کردہ حدود کے احترام پر یقین رکھتا ہے۔ چنانچہ سیاسی تجزیوں میں یہ تقسیم ہمیشہ برتی جاتی کہ فلاں جماعت اور اس کی قیادت اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ہے، اور فلاں پرو اسٹیبلیشمنٹ۔ ایک طویل عرصے تک یہ تاثر مستحکم رہا کہ پیپلزپارٹی اینٹی اسٹیبلیشمنٹ جبکہ مسلم لیگ نون پرو اسٹیبلیشمنٹ جماعت ہے۔ جنرل مشرف نے 12 اکتوبر 1999ء کو نواز حکومت کو لپیٹا ہی نہیں بلکہ شریف خاندان کو جلا وطن بھی کردیا تو اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نون لیگ اور اسٹیبلیشمنٹ کے مابین تین طلاقیں ہوگئیں۔ لہٰذا اب “رجوع” نہیں ہوسکتا۔ اب تو حلالے کے بعد نیا نکاح واحد آپشن ہے اور حلالے کے لئے اسٹیبلیشمنٹ کا کوئی ہم پلہ موجود نہیں۔ یوں گویا اس طلاق کو حتمی ہی سمجھ لیا گیا۔ بلاشبہ محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی صورتحال کو اسی نظر سے دیکھا تھا۔ جس کا اندازہ اس این آر او سے لگایا جاسکتا ہے جو پیپلزپارٹی اور اسٹیبلیشمنٹ کے رشتہ ازدواج کی جانب اہم پیش رفت تھا۔ اس این آر او کے نتیجے میں اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ہونے کا بھرم رکھنے والی پیپلز پارٹی اسٹیبلیشمنٹ کے گھر کو رونق بخشنے کو تیار تھی۔ مگر محترمہ کی شہادت سے یہ سارا کھیل ہی بگڑ گیا اور اس کے نتیجے میں جو کچھ ہوا وہ حیران کن تھا۔ ہوا یہ کہ نون لیگ لمحہ ضائع کئے بنا اسٹیبلیشمنٹ کے گھر میں داخل ہوگئی۔ تجزیہ کاروں سے غلطی یہ ہوگئی تھی کہ ان کا دھیان اس جانب نہ جا سکا تھا کہ سعودی شاہی خاندان اور ہماری اسٹیبلیشمنٹ کی گہری دوستی ہے۔ شاید اسی دوستی کا فائدہ اٹھا کر جدہ میں خاموشی سے حلالہ کھڑکا لیا گیا تھا۔

اسٹیبلیشمنٹ کی بھی شاید مجبوری یہ رہی کہ محمد خان جونیجو والی مسلم لیگ جیسی بھی تھی مگر اس نے نون لیگ کی صورت ایک قد آور بچی کو جنم دیا تھا۔ گویا اولاد اس سے ایک ہی پیدا ہوئی تھی مگر تھی بہت کام کی۔ سو اسٹیبلیشمنٹ نے اسے تین طلاقیں دے کر اس سے ہونے والی اپنی بظاہر معصوم سی دکھنے والی تیز و طرار بچی سے کام چلانا شروع کردیا تھا۔ لیکن نون لیگ کی اپنی اولاد بہت ہی نکمی ثابت ہوئی تھی۔ ضیاء لیگ، جونیجو لیگ، قاف لیگ اور نہ جانے کون کونسی لیگ کو اس نے جنم دیا مگر کام کی ان میں ایک بھی نہ تھی۔ یوں جنرل کیانی کے پاس نون لیگ کو ہی قبول کرنے کے سوا کوئی آپشن نہ تھی۔ 2014ء میں نون لیگ تیسری بار برسر اقتدار آئی تو آتے ہی اپنے تیور دکھانے شروع کردیئے۔ سو اسٹیبلیشمنٹ نے پہلے ہی سال اس کے خلاف حکمت عملی تشکیل دے ڈالی۔ پانامہ تا اقامہ جو کچھ ہوا وہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ اور 2018ء کے الیکشن اور اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تو کل ہی کی بات ہے۔ پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے نون لیگ نے اسٹیبلیشمنٹ کو جس طرح للکارا اس سے پہلی بار باقاعدہ طور پر یہ تاثر قائم ہونا شروع ہوا کہ اب اس کے بعد سے نون لیگ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ جماعت ہے۔ اور اس تاثر کو اس ناچیز سمیت نون لیگ کے تمام حامی تجزیہ کاروں نے نہ صرف قبول کیا بلکہ پھیلایا بھی۔ اس صورتحال میں پیپلزپارٹی سے اسٹیبلیشمنٹ کا سونا گھر دیکھا نہ گیا۔ چنانچہ اس کی جو سکیم محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے نتیجے میں فیل ہوئی تھی اسے دوبارہ آزمانے کا فیصلہ ہوگیا۔

جارحانہ پیش رفت کے باوجود اسٹیبلیشمنٹ کے لئے یہ ایک مشکل وقت تھا۔ لگ بھگ پینتیس سال ہوچلے تھے مگر نون لیگ سے وہ کوئی لائق بچی پیدا کرنے میں ناکام تھی۔ نجومیوں نے پیشنگوئیاں بھی کر رکھی تھیں کہ ایک بچی پیدا ہوگی جس کا نام “شین لیگ” ہوگا اور وہ بہت نام کرے گی۔ مگر نون کے بطن سے نکلی بھی تو ایک فقط ایک “نون” ہی۔ چکری کی نون جو چکری میں پڑی پڑی سڑ گئی۔ سو اسٹیبلیشمنٹ نے پیپلزپارٹی کو آزمانے کے بجائے اس ڈارلنگ یعنی گرل فرینڈ سے ہی کام چلانے کا فیصلہ کرلیا جس پر وہ 2010 سے ہی تحفے تحائف اور ایزی لوڈ سمیت نہ جانے کیا کیا نوازشات کر رہی تھی۔ اور یوں آیا ہائبرڈ سسٹم ۔ پیپلزپارٹی نے اس کا برا منایا اور نون لیگ کی ہاں میں ہاں ملانی شروع کی تو جلد اسے آنکھ مار کر یقین دلا دیا گیا کہ باری والے سسٹم میں اگلی باری اسی کی ہوگی۔ نتیجہ یہ کہ پیپلزپارٹی نے نون لیگ سے تھوڑا فاصلہ کرلیا۔ جس سے یہ تاثر مزید مستحکم ہوچلا کہ اب پیپلزپاٹی پرو اسٹیبلیشمنٹ اور نون لیگ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ جماعتیں ہیں۔ مگر ایک بار پھر وہی ہوا جو 2008ء میں ہوچکا تھا۔ ایک بار پھر نون لیگ سے یہ نہ سہا گیا کہ پیپلزپارٹی اسٹیبلیشمنٹ کے گھر میں اس کی جگہ لے۔ چنانچہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کا مرحلہ آیا تو پی ٹی آئی تو وہی کھیل شروع کرچکی تھی جو نون لیگ بھی کرتی آئی ہے، یعنی اسٹیبلیشمنٹ سے دغا۔ وہ ایکسٹینشن سکیم کو فیل کرنے کے چکر میں تھی کہ اچانک نون لیگ آگے بڑھی اور اسٹیبلشمنٹ کو ایک جبری پپی سے نواز دیا۔ مگر اسٹیبلیشمنٹ کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ پیپلزپارٹی کو اگلی باری کی یقین دہانی کراچکی تھی۔ چنانچہ ایکسٹینشن والے ووٹ کے باوجود نون لیگ سے رویے میں کوئی فرق نہ آیا۔

تب سے نون لیگ یہ ناٹک رچا رہی ہے کہ اس نے مزاحمتی گروپ اور مفاہمتی گروپ کے نام سے دو کیمپ بنا رکھے ہیں۔ باور یہ کرایا جاتا ہے کہ ایک گروپ مزاحمت اور دوسرا مفاہمت کا قائل ہے۔ مگر حقیقت میں مزاحمتی گروپ کا کام بس اتنا سا ہے کہ اسٹیبلیشمنٹ کو تنگ کرکے مفاہمت پر آمادہ کیا جائے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مزاحمتی گروپ میں میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے سوا کوئی ہے ہی نہیں۔ کیا ہم نے نون لیگ کے کسی تیسرے رہنماء کو جارحانہ تقاریر کرتے دیکھا ہے ؟ خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، خرم دستگیر، حتی کہ مریم نواز کے اتالیق پرویز رشید تک نے کوئی باپ بیٹی سٹائل والی تقریر آج تک کی ؟ پچانوے فیصد نون لیگ کو مفاہمتی گروپ میں رکھ کر میاں نواز شریف انہیں “ناقابل قبول” والی کٹیگری سے ہی بچا تے آئے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بہت اہم ہوجاتا ہے کہ اگر نون لیگ واقعی اینٹی اسٹیبلیشمنٹ ہوچکی ہے تو اس جماعت کی پوری قیادت اینٹی اسٹیبلیشمنٹ موڈ میں کیوں نہیں ہے ؟ ذرا غور کیجئے اس جماعت نے پچھلے دو سال کے دوران کوئی ایسا تنہاء جلسہ عام بھی نہیں کیا جہاں اس کی پوری قیادت کو تقاریر کرنی پڑی ہوں اور یہ جلسے ووٹ کی عزت کیلئے ہوئے ہوں۔ اس عرصے میں اس کے سارے تنہاء جلسے انتخابی جلسے ہی رہے ہیں اور دھواں دھار تقاریر صرف مریم نواز نے ہی کی ہیں۔

جو رہی سہی خوش فہمی تھی وہ نئے ڈی جی آئی ایس آئی کے تقرر کے حالیہ معاملے میں ہی ہوا ہوگئی۔ موجودہ وزیر اعظم اسٹیبلیشمنٹ کے مقابل کھڑے ہیں تو نون لیگ اپنا وزن اسٹیبلیشمنٹ کے پلڑے میں ڈال رہی ہے۔ نجم سیٹھی لندن میں ہیں۔ نواز شریف سے اپنی ملاقات کے بعد سے وہ مسلسل یہ دعوی کر رہے ہیں کہ نون لیگ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اب اسٹیبلیشمنٹ کو ٹارگٹ نہیں کرے گی، اپنی ساری توپوں کا رخ عمران خان کی جانب موڑے گی۔ کسی کو یاد ہے آج سے ٹھیک ایک سال قبل پی ڈی ایم کے جلسے میں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے کیا کہا تھا ؟ یہی کہ عمران خان سے ہماری کوئی لڑائی نہیں، ہماری لڑائی اسے لانے والوں سے ہے، عمران خان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں۔ اور اسی چیز کو “مزاحمت” کا نام دیا گیا تھا۔ اب ایک سال کے سفر کے بعد عمران خان یکایک “اہم” کیسے ہوگیا۔ اتنا اہم کہ نواز شریف نے فیصلہ ہی یہ کرلیا کہ اب ہم اسٹیبلیشمنٹ کو کچھ نہ کہیں گے، اپنی ساری توپیں عمران خان پر ہی داغیں گے۔ یہ بدترین درجے کی موقع پرستی ہے اور منافقت ہے۔

جوں ہی میاں نواز شریف کو یہ نظر آیا کہ اسٹیبلیشمنٹ شدید مشکل میں ہے۔ وزیر اعظم کی طرف سے آرمی چیف کی برطرفی کا امکان ہے تو اس نازک صورتحال میں فورا ساری توپوں کا رخ عمران خان کی جانب کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ اور تماشا دیکھئے کہ پٹواری تجزیہ کار پورے دھڑلے سے اس منافقت کو “مزاحمت کی کامیابی” قرار دے رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان نواز شریف سے مزاحمت والا کارڈ ہی چھین چکے۔ اس وقت تو مزاحمت عمران خان کر رہے ہیں۔ نواز شریف تو ایک پیر اسٹیبلیشمنٹ کے خیمے میں رکھ کر پوچھ رہے ہیں “کیا میں اندر آسکتا ہوں سر ؟”

یوں اس موجودہ ہائبرڈ نظام نے پاکستانی سیاست میں بنے ماضی کے سارے تاثر مٹا کر رکھ دیئے ہیں۔ اور یہ بات واضح ہوکر سامنے آگئی ہے کہ ووٹ کو عزت دو کا ڈرامہ رچانے والے نواز شریف بھی اپنے دم پر نہ تو عمران خان جیسی تاریخ کی سب سے غیر مقبول حکومت کو چلتا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اسٹیبلیشمنٹ کی چھتری کے بغیر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ چنانچہ مقابلہ ان کا اس وقت اس پیپلزپارٹی سے ہی ہے جو اسٹیبلیشمنٹ کے زنان خانے میں نون لیگ کی جگہ لینے کی ساری تیاریاں کرچکی۔ اور پیپلز پارٹی اس کا پریشر محسوس بھی کرنے لگی ہے۔ جس کا اظہار دو روز قبل پیپلز پارٹی پنجاب کے ناکام رہنماء قمر الزمان کائرہ نے یہ کہہ کر کیا ہے کہ نون لیگ واضح کرے کہ وہ مزاحمت کرنا چاہتی ہے یا مفاہمت ؟، اور یہ مفاہمت وہ کرنا کس سے چاہتی ہے ؟ غور کیجئے کائرہ مزاحمت کا نہیں پوچھ رہے کہ کس کے خلاف ہو رہی ہے ؟ مفاہمت کا پوچھ رہے ہیں۔ کیونکہ ٹینشن انہیں مزاحمت نہیں، مفاہمت کے امکان نے ہی دے رکھی ہے۔ اس صورتحال میں پٹواری تجزیہ کار شوق سے مزاحمت والا چورن یہ کہہ کر بیچتے رہیں کہ مزاحمت کہ نتائج ظاہر ہونے والے ہیں۔ ہم یہ چورن مزید نہ بچیں گے، کیونکہ ہم سمجھ چکے کہ مزاحمت تھی نہ ہی مفاہمت، بس نری منافقت ہی تھی۔

Related Posts