کرتار پور راہداری کھولنے کی اجازت

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا "یومِ قیامت طیارہ" حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارتی حکومت نے سکھ یاتریوں کو بابا گرو نانک کے جنم دن کی تقریبات میں شرکت کی اجازت دیکر بالآخر کرتار پور راہداری کو دوبارہ کھولنے پر رضا مندی ظاہر کردی ہےتاہم یہ قابل مذمت ہے کہ بھارت نے اس معاملے پر بھی سیاست کی اور پاکستان پر پہل نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔

پاکستان پہلے ہی 3000 بھارتی سکھوں کو ویزے جاری کر چکا ہے اور ہزاروں عقیدت مندوں کے استقبال کے لیے تیار ہے۔ اس موقع پر بھی بھرپور انتظامات کئے گئے ہیں۔پاکستان نے راہداری کے افتتاح کی دوسری سالگرہ بھی منائی تھی۔

دفتر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ راہداری کو دوبارہ کھول دیا گیا ہے اور توقع ہے کہ بھارتی فریق بھی اس کی پیروی کرے گا۔ اس کے باوجود بھارتی حکومت نے بھارتی سکھوں کی طرف سے وارننگ جاری کیے جانے سے پہلے اس معاملے کو آخر تک موخر کر دیا۔

کرتارپور راہداری کو اقوام متحدہ کے سربراہ نے امید کی راہداری کہا ہے۔ 2019 میں افتتاح کے بعد اس کو بڑے پیمانے پر امن کا محراب اور بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ دینے کی کوششوں کی روشن مثال قرار دیا گیا۔

کرتارپور راہداری کو پچھلے سال کورونا وائرس کے باعث بند کردیا گیا تھا جس نے بھارت کو بری طرح متاثر کیا تھا۔ دونوں فریقوں میں اس بات پر تنازعہ تھا کہ راہداری کو دوبارہ کب کھولا جائے جبکہ مودی حکومت نے سکھوں کو ان کے مقدس مقام پر جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا ۔

اس ماہ برطانیہ میں خالصتان ریفرنڈم میں 100000 سے زیادہ سکھوں نے حصہ لیا اس لئے سکھوں کی دھمکی کے بعد بھارتی حکومت آخرکار اس مطالبے کے سامنے جھک گئی۔

بھارت نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے اپنے ہی شہریوں کے کارڈ اور ویزے منسوخ کرنے کی دھمکی دی ہے۔ حق خودارادیت سے انکار کے علاوہ بھارتی حکام نے بیرون ملک اپنے ہی شہریوں کے جمہوری حقوق کو ختم کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔

سانحہ امرتسر جس کی 37 ویں برسی 31 اکتوبر کو منائی گئی، اسکی یادیں ابھی بھی تازہ ہیں جب ہزاروں سکھ تشدد میں مارے گئے تھے۔

بہت سے سیاست دان ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے نومبر 1984 میں سکھوں پر حملہ کرنے کے لیے ہجوم کی قیادت کی۔ اب صورت حال بہت مختلف ہے جب ایک دشمن ہندوتوا حکومت نے اقلیتوں کی زندگیوں کو اجیرن کر دیا ہے۔

بھارت کو خاص طور پر سکھوں کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں ان کے مقدس مقامات کی زیارت کے موقع میں تاخیر یا انکار کرنا فائدہ مند نہیں بلکہ امن کی راہ میں مزید مشکلات کا سبب بنے گا۔

Related Posts