قانون میں اصلاحات

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حکومت ملک میں انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے فوجداری اور دیوانی قوانین میں 700 سے زائد ترامیم لا چکی ہے۔ وزیر اعظم نے فوجداری انصاف کے نظام میں طویل انتظار کاسبب بنی والی شقیں تبدیل کرنے کوانقلابی اقدام قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ یہ ترامیم عام آدمی کے لیے انصاف کے حصول کے طریقہ کار کو آسان بنائیں گی۔

وزارت قانون نے فوجداری مقدمات کی سماعت کے لیے 9 ماہ کی ڈیڈ لائن تجویز کی ہے۔ ڈیڈ لائن پوری نہ کرنے کی صورت میں عدالت کو وضاحت پیش کرنا ہوگی۔اگر اس پر عمل درآمد کیا جاتا ہے تو یہ یقینی طور پر عدالتی نظام کو بدل دے گا کیونکہ ہم نے ایسے بے شمار کیسز دیکھے ہیں جن میں مدعا علیہ اور ملزم کو برسوں تک طویل عدالتی مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا کوئی انجام نظر نہیں آتا۔

اصلاحات میں کیسز کے التواکو کم کرنے کے لیے فضول شکایات پر جرمانہ عائد کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ ہزاروں مقدمات عدالتوں میں زیر التوا ہیں جس سے عدالتی نظام پر بہت بڑا دباؤ آتاہے۔ یہ پلی بارگین کا تصور بھی لاتا ہے جہاں مشتبہ شخص سزا کم کرنے کے لیے جرم قبول کرلیتا ہے تاہم اس کا اطلاق سنگین جرائم اور سزائے موت کے مقدمات پر نہیں ہوگا۔

ترامیم میں ٹرائل جج کی اجازت کے بغیر وڈیو اور آڈیو شہادتیں متعارف کرانا بھی شامل ہے۔ عدالتوں کا جدید ٹیکنالوجی اور آلہ کار اختیار نہ کرنا نظام عدل کے لیے ایک نقص ہے۔شہادتیں لفظ بہ لفظ نقل کی جانی چاہئیں تاکہ وہ تحریف کا شکار نہ ہوں جو تفتیشی عمل اور انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

اصلاحات میں کئی دہائیوں پرانے پولیس نظام کی تنظیم نو کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ برطانوی دور کے قوانین کا از سر نو جائزہ پی ٹی آئی کے منشور کا حصہ تھا جو آخر کار آگے بڑھ رہا ہے۔

پولیس اسٹیشن کا انچارج کم از کم سب انسپکٹر ہو گا جس کے پاس بی اے کی ڈگری ہوگی تاہم حکومت کو تھانوں میں کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے مزید مؤثر اصلاحات لانے کی ضرورت ہے۔ مفرور افراد کے لیے قوانین مزید سخت کیے جا رہے ہیں کیونکہ اگر وہ قانون سے دور رہے تو ان کے قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور بینک اکاؤنٹس کو بلاک کر دیا جائے گا۔

قانون دانوں کاکہنا ہے کہ حکومت نے اصلاحات کیلئے ان سے مشاورت نہیں کی تاہم حکومت کاکہنا ہے کہ قانون سازی کے لیے قانونی برادری کے ساتھ اشتراک کیا گیا تھا۔اصلاحات قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی جانب ایک قدم ہیں اور قانونی برادری کو انصاف کی فراہمی اور عام آدمی کو فوری انصاف کی فراہمی میں تعاون کرنا چاہیے تاکہ انصاف کا بول بالا ہوسکے۔

Related Posts