اسٹاک مارکیٹ میں حصص کا جادو

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان اسٹاک مارکیٹ 2017 میں اپنے عروج پر تھی ،مارکیٹ میں 52ہزار سے زائد انڈیکس بھی دیکھا گیا لیکن آج دیکھا جائے تو آج کا شیئر جو اپنی بلندیوں پر ہے وہ 2017 میں اس مقام پر نہیں پہنچ سکے جہاں آج موجود ہیں۔آج ان شیئرز کی قیمتیں آسمان سے باتیں کررہی ہیں مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ 52 ہزار کی مارکیٹ میں ان حصص کی قیمتیں عروج پر کیوں نہ پہنچ سکیں۔

بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان شیئرز میں کوئی کھیل ہوا یا ان شیئرز نے اپنی بیلنس شیٹ پر ایسی نمایاں کارکردگی دکھائی جس کی وجہ سے وہ شیئرز 15سو فیصد اوپر آگئے۔اگر15سوفیصد شیئر اوپر آکر بیلنس شیٹ میں نمایاں نظر آتا ہے تو کمپنی بونس یا منافع دیتی ہے لیکن دیکھا یہ گیا کہ ان شیئرز نے پہلے کبھی بونس دیا نہ آج تک کوئی امکان ہے۔

ندیم مولوی کے مزید کالمز پڑھیں:

پاکستان، بھارت اور مہنگائی کا رونا

ہماری معیشت اور مہنگائی کا عفریت

موجودہ دور حکومت میں جن شیئرز کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا اگر ان پر ایک نظر ڈالیں تو سب سے پہلے ٹیلی کارڈ کا نمبر آتا ہے جس نے گزشتہ 52 ہفتوں میں 2روپے ساٹھ پیسے سے 25 روپے 10 پیسے تک اپنی قیمتوں میں اضافہ کیا مگر اس شیئر نے نہ کوئی بونس دیا نہ الگ سے منافع اور دیکھا یہ جارہا ہے اس کی فری فلوٹ 96اعشاریہ 12 فیصد ہے یعنی اس کے حصص کی ملکیت زیادہ تر عوام کو دیدی گئی ہے۔سوچنے کی بات تو یہ ہےکہ عوام کو 2 روپے والا شیئر25 روپے میں مل چکا ہے اور اگر یہ 25 روپے کا شیئر واپس 2 روپے پر آتا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا۔

دوسرے نمبر پر جس شیئر کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا وہ ٹی آر جی ہے جس کی ملکیت 99اعشاریہ 60کے فری فلوٹ کے ساتھ ہے۔یعنی اسکی ملکیت بھی عوام کے پاس ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ٹی آر جی گزشتہ 52 ہفتوں میں 75 روپے سے 186 روپے پر گیا اور آج دوبارہ75 روپے کی سطح پر آگیا ہے۔اگر اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو چند سال قبل یہ 20 روپے میں ٹریڈ کررہا تھا۔

یہاں سوال پھر یہی ہے کہ 20 روپے والا شیئر جب 180 روپے پر پہنچنے کے بعد آج واپس 75 روپے پر آیا ہے تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اسی طرح کے کئی شیئرز ہیں جو 2018 سے ابھی تک 100 سے 1500 فیصد شیئر مارکیٹ میں بڑھتے گئے ہیں لیکن کسی کمپنی نے منافع دیا نہ بونس لیکن عوام اس کے باوجود ان شیئرز کو خریدتے رہے۔

عوام اسی سوچ کے ساتھ کہ مارکیٹ میں تبدیلی آرہی ہے، شیئرز خریدتے رہے اور عوام کومختلف کہانیاں اور جواز دئیے جارہے تھے جس کی وجہ سے عوام بغیر سوچے سمجھے ان شیئرز میں داخل ہوکر لگاتار سرمایہ کاری کرتے رہے ۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ادارے اور اسٹاک مارکیٹ اپنی ان کامیابیوں کو برقرار کیوں نہ رکھ سکیں کیونکہ یہ وہی شیئرز تھے جو 2018 سے قبل کبھی بھی کامیابی کے ساتھ اتنی اونچائی پر نہیں پہنچے جو 2018 سے 2022 تک دیکھی گئی۔

مارکیٹ 52 ہزار سے آج 45 ہزار کی سطح پر آچکی ہے۔یہاں سوال یہ ہے کہ کیا 2018 سے ابھی تک مارکیٹ میں کسی قسم کے گھپلے ہوئے ہیں یا لوگوں کے جذبات کے ساتھ کوئی کھیل کھیل کر وہ شیئردلائے گئے جس کی درحقیقت حیثیت بہت کم ہے۔کیا اسٹاک مارکیٹ کے بڑے بڑے کھلاڑی حکومت کو انہی شیئرز کے ذریعے سے ترقی دکھارہے تھے یا اپنا منافع کمارہے تھے؟یہ تمام تر وہ سوالات ہیں جن پر حکومتِ وقت کو غور کرنا چاہئے اور شیئرزکے کاروبار سے وابستہ افراد کو بھی ایسے مسائل کا حل نکالنے کیلئے جدوجہد کرنا ہوگی۔ 

Related Posts