بلوچستان میں ہزارہ برادری پر حملوں کی وجوہات، سیکڑوں شہادتیں، حکومت کب اقدامات اٹھائے گی ؟؟؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Reasons behind attacks on Hazaras - When will govt take action?

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

بلوچستان کے علاقے مچھ میں 11 کان کنوں کے اندوہناک قتل کے بعد ہزارہ برادری کے احتجاج نے ملک گیر تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے جس کے بعد حکومت نے متاثرین کے مطالبات منظور کرتے ہوئے ہزارہ برادری کی شرائط مان لی لیں لیکن بلوچستان میں دہشت گردی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی بلوچستان میں ہزارہ برادی پر درجنوں حملے ہوچکے ہیں اور ماضی میں بھی وزیراعظم کی یقین دہانیوں کے باوجود ہزارہ برادری کے مصائب کم نہیں ہوسکے۔

ہزارہ برادری پر حملے
بلوچستان میں ہزارہ برادری پر حملے کوئی آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ سلسلہ دو دہائیوں سے جاری ہے اور اب تک 80 سے زائد دہشت گردی کے واقعات میں 16 سے زائد ہزارہ افراد کو شہید کیا جاچکا ہے ہم چند بڑے واقعات پر ہی نظریں ڈالیں تو ہزارہ برادری کی شہادتیں دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور روح کانپ جاتی ہے۔
2002
ہزارہ برادری پر بڑے حملوں کا آغاز سال 2002ء میں ہوا جب سریاب روڈ پر دہشت گردوں نے پولیس ٹریننگ اسکول کے 13 کیڈٹس کو گولیاں مار کر قتل کیا۔
2003
دہشت گردوں نے جولائی کے مہینے میں 4 تاریخ کو امام بارگاہ کلاں پرنس روڈ پر دو خودکش حملے کئے اور فائرنگ بھی کی جس میں 53 افراد لقمہ اجل بنے۔
2004
یوم عاشور کے جلوس پر لیاقت بازار کے قریب دستی بم اور خودکش دھماکے میں 2 مارچ کو غم حسین کی یاد منانے والے 82 زائرین کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔
2010
ہزارہ برادری کی مشکلات میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتاگیا اور 3ستمبر کو انسانیت کے دشمنوں نے باچا خان چوک پر القدس ریلی پر خودکش حملہ کرکے 83 افراد کو موت کی نیند سلادیا۔
2013
2013 میں بھی ہزارہ برادی کیلئے مشکلات کا سال رہا جب 10جنوری کو عملدرروڈ پر دو خودکش حملے میں 128 افراد کو شہید کیا گیا جن میں 80 کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا ،دہشت گردی کا سلسلہ دراز ہوتا گیا اور 16فروری کوہزارہ ٹاؤن کرانی مارکیٹ میں واٹر ٹینکرخودکش حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 113 افراد جاں بحق ہوئے اوراسی سال 30جون کوہزارہ ٹاؤن میں دہشت گردوں نے پھر خون کی ہولی کھیلی اور درجنوں افراد کو خون میں نہلا دیا جن میں سے 57 خالق حقیقی سے جا ملے۔
2014
مستونگ میں ہونیوالے بہیمانہ حملے میں زائرین کی بس پر پہلے خودکش حملہ کیا گیا اور بعد میں گولیاں کو بوچھاڑ کردی گئی جس میں 42 زائرین جان سے گئے۔
2017
کوئٹہ میں کاسی روڈ پر 9 اکتوبر کو بھی ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا اورفائرنگ کے نتیجے میں ہزارہ برادری کے 5 افراد جاں بحق ہوئے۔
2018
صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں 28 اپریل 2018ء کے روز بھی نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے 2 افراد کی جان لے لی جن کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ یہ واقعہ کوئٹہ کی جمال الدین افغانی روڈ پر پیش آیا۔
2019
11 اپریل کو کوئٹہ کی ہزار گنجی سبزی منڈی میں خود کش بم دھماکے میں 20 افراد جاں بحق ہوئے،اس واقعہ کیخلاف ہزارہ برادری نے کوئٹہ کے مغربی بائی پاس پر دھرنا دیا ۔
2021
سال نو کے آغاز میں ہی 3 جنوری کودہشت گردوں نے پاک سرزمین کو11 بے گناہ کان کنوں کے خون سے رنگ کر ایک بار پھر ہزارہ برادری کے زخم تازہ کردیئے۔

دہشت گردی کی وجوہات
بلوچستان الحاق پاکستان کے بعد سے مشکلات کا شکار رہاہے ، بلوچستان میں فوجی آپریشنز کے باوجود مکمل امن و امان تاحال ایک خواب بنا ہوا ہے، بلوچستان میں اندرونی شورش کا فائدہ اٹھاکر بیرونی قوتیں کشت و خون میں مصروف ہیں۔ بھارتی ایجنسی را اور افغان ایجنسی این ڈی ایس کا گٹھ جوڑ بلوچستان میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

بھارتی خفیہ ایجنسی “را “علیحدگی پسند تنظیموں اور عالمی دہشت گرد گروپوں کی مالی معاونت کے ذریعے پاکستان میں دہشت گردی کرواکر علیحدگی پسندوں کو ملک دشمنی پر اکسا رہی ہے اور بھارت بلوچستان کو الگ کرنے کیلئے ہر ممکن کوشش کررہا ہے اور سی پیک منصوبے کی وجہ سے بھارت نے اپنی پوری توجہ بلوچستان پر مرکوز کررکھی ہے اور حالیہ مچھ واقعہ میں بھی ایک مخصوص برادری کو نشانہ بنانے کے پیچھے بھارتی ہاتھ کرفرمار ہے۔بھارت کسی بھی صورت بلوچستان میں امن وامان سبوتاژ کرنا چاہتا ہے تاکہ سی پیک منصوبہ ناکام بنایا جاسکے ۔

حکومتی اقدامات
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے حالیہ مچھ واقعہ کے متاثرین سے ملاقات کا اعلان کیا ہے تاہم اس سے قبل سال 2019 میں اپریل میں ہزار گنجی میں خودکش دھماکے بعد وزیراعظم عمران خان نے 21 اپریل کو بلوچستان کا دورہ کیا اور دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم دہرانے کے ساتھ ساتھ ہزارہ برادی کو ہرممکن تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔

نئے سال کے آغاز میں مچھ میں ہونیوالے المناک سانحہ نے حکومتی دعوؤں اور اقدامات کی قلعی کھول دی ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان جلد سے جلد کوئٹہ کا دورہ کرکے متاثرین کے تحفظات دور کریں اور ان کے جائز مطالبات پر کارروائی کریں اور ہزارہ برادری کے تحفظ کیلئے اقدامات یقینی بنائیں۔

Related Posts