اللہ تعالیٰ کا وعدۂ فتح، اہم وجوہات

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اللہ تعالیٰ نے 3 مخصوص وجوہات کی بنیاد پر مسلمانوں سے فتح کا وعدہ کیا ہے جس میں سے پہلی وجہ سورۃ النور میں بتائی گئی۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انہیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی، اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور البتہ ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا، بشرطیکہ میری عبادت کرتے رہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور جو اس کے بعد ناشکری کرے وہی فاسق ہوں گے۔

اور نماز پڑھا کرو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رسول ﷺ کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورۃ النور، آیت نمبر 55 اور 56) ۔

سورۃ النور کی آیات سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو فتح عنایت فرمائے گا جو اللہ کی مدد کریں گے اور ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہماری مدد کی ضرورت نہیں ہے تاہم اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اللہ کے مقصد اور دین کی مدد کیلئے ہر کام کرنے کو تیار ہوں۔ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اللہ تعالیٰ کے دین کے مطابق گزاریں اور دوسروں سے بہترین سلوک اور برتاؤ کے ساتھ اسوۂ حسنہ کو فروغ دیں۔ مزید برآں، اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ ہمیں اپنے دین اور ایمان پر ثابت قدم رہنا ہوگا۔

سعودی عرب کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی ایام میں مسلمانوں کو ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا اور اس لیے وہ آزادانہ طور پر دین پرعمل پیرا نہیں ہوسکتے تھے، مثلاً سب کے سامنے نماز ادا کرنا عملاً ناممکن تھا۔ اس لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں کو سلامتی اور طاقت دے گا تو وہ کھلے عام نماز ادا کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، نیکی کی ترویج کریں گے اور برائی سے روکیں گے۔

نیز، اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا کہ اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے، بے شک اللہ تعالیٰ زور آور اور زبردست ہے (سورۃ المجادلہ آیت 21)، من حیث القوم یہ آیت ہم سب پر نافذ ہوتی ہے کہ ہم انبیاء کے پیروکار ہیں، اور اس لیے ہمیں اللہ کی مدد حاصل کرنے کے لیے اس کے مقصد اور دین کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔

 دوسری وجہ پر غور کریں تو اللہ تعالیٰ کی امداد اور فتح کا وعدہ ان مسلمانوں کیلئے ہے جو آپس میں متحد ہوں۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورۃ الانعام کی آیت 159 میں فرماتا ہے کہ ‘جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کئی جماعتیں بن گئے، تمہارا ان سے کوئی تعلق نہیں، ان کا کام اللہ ہی کے حوالے ہے۔پھر وہی انہیں بتلائے گا جو کچھ وہ کرتے تھے۔’ دراصل جب ہم آپس میں جھگڑتے ہیں اور لڑتے ہیں تو یہ ہماری روح کو کمزور کر دیتا ہے اور منفی نتائج پیدا کرتا ہے۔

غزوہ بدر میں جب صحابہ اکٹھے ہوئے تو وہ قریش کے خلاف جیت گئے لیکن اختلاف احد میں شکست کا باعث بنا۔ غزوہ احد کے دوران منافقین کا ایک گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں فتنہ و شکست ہوئی۔ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی تقریباً شروع ہو چکی تھی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کی سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 103 میں حکم دیتا ہے: ‘اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے۔ پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے، اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی، اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔’ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام فتح حاصل کرنے کے لیے اللہ کی مدد کو اہمیت دیتا ہے۔ فی الحال، مسلمانوں میں متعدد عوامل کی بنیاد پر تقسیم موجود ہے جو اسلامو فوبیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و ستم سے لڑنے میں غیر مؤثر ہونے کا سبب بنی۔ اختلافات کچھ بھی ہوں، ہمیں ان کو ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کیا جا سکے۔

سیدنا علی ابن ابی طالب  کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے دوران خارجی، جو معمول سے ہٹ کر بالکل الگ تھلگ عقائد کے حامل تھے، مرکزی دائرۂ اسلام سے الگ ہوگئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ گفت و شنید کی اور اس وقت کے سب سے بڑے زندہ علماء میں سے ایک حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کو خارجیوں سے بحث کے لیے بھیجا تاکہ انہیں امت کی طرف لوٹنے پر آمادہ کریں۔ تقریباً نصف اور بعض روایتوں کے مطابق دو تہائی خارجیوں نے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دور میں امت میں دوبارہ شمولیت اختیار کی لیکن بقیہ شامل نہیں ہوئے۔ خلیفۂ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر باقی خوارج دوسرے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں تو مرکزی دھارے کے مسلمان انہیں اپنے عقائد کو تبدیل کرنے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حکمت اور عملیت کھل کر سامنے آئی۔

ربِ کائنات کے وعدۂ فتح کی تیسری وجہ تب پیدا ہوتی ہے جب ہم اپنے آپ کو مضبوط کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الانفال کی آیت نمبر 60 میں ہمیں ہدایت کی ہے کہ ’’اور ان سے لڑنے کے لیے جو کچھ قوت اور صحت مند گھوڑوں سے جمع کرسکو، تیار رکھو کہ اس سے اللہ کے اور تمہارے دشمنوں پر اور ان کے سوا دوسروں پر رعب پڑے، جنہیں تم نہیں جانتے، اللہ انہیں جانتا ہے، اور اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کرو گے تمہیں (اس کا ثواب) پورا ملے گا اور تم سے بے انصافی نہیں ہوگی۔’ بحیثیت مسلمان، ہمیں اپنے آپ کو صرف جسمانی طور پر ہی نہیں بلکہ ذہنی طور پر تعلقات عامہ، میڈیا، مہم چلانے اور بیانیہ بنانے کی تکنیکوں کو سیکھنے کے لحاظ سے مضبوط بنانا چاہیے کیونکہ آج کل ففتھ جنریشن وار وسیع ہوتی جارہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بتا رہا ہے کہ ہر فرد کے پاس ایک ہنر یا طاقت ہوتی ہے جس کی ہمیں پرورش کرکے مہارت حاصل کرنی چاہئے۔ 

Related Posts