جامعہ ہری پور میں کشمیر کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی، انکوائری کیوں مکمل نہ ہوئی؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جامعہ ہری پور میں کشمیر کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی، انکوائری کیوں مکمل نہ ہوئی؟
جامعہ ہری پور میں کشمیر کی طالبہ کے ساتھ جنسی زیادتی، انکوائری کیوں مکمل نہ ہوئی؟

کراچی: پاکستان کی جامعات میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کے بڑے شہروں کی جامعات میں ہراسگی کے پیش آنے والے واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں جبکہ اندرون شہروں و اضلاع کی جامعات میں پیش آنے والے واقعات کو انتظامیہ دبا دیتی ہے۔

حالیہ دنوں میں اندرون سندھ اور کراچی کی جامعہ میں ایسے ہی دو واقعات رپورٹ ہوئے اور پنجاب کے ضلع ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں طالبہ کو جنسی ہراساں کرنے پر بغیر سزا دیئے اسسٹنٹ پروفیسر کو فارغ کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔

جامعہ ہری پور میں بھی ایسا واقعہ رپورٹ ہوا جس کو دبا دیا گیا ہے، ہری پور سمیت خیبر پختون خوا کے دیگر اضلاع میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مسائل کا سامنا ہے، جس کے بعد اب جامعہ ہری پور میں کشمیرسے آئی طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کا واقعہ سامنے آیا ہے جس سے طالبات کیلئے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مزید مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔

کشمیر سے ہری پور یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آنے والی طالبہ (ہ ب) کے ساتھ مبینہ طور پر پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر امجد خان نے زیادتی کی جس کے بعد متاثرہ طالبہ نے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی سے تحریری شکایت کی اور معاملہ والدین کے علم میں آنے کے بعد والدین نے بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔

جامعہ ہری پور کے پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں پہلے سمسٹر کی طالبہ (ہ ب) کے ساتھ مبینہ زیادتی کا انکشاف اس وقت ہوا جب طالبہ نے وائس چانسلر کو ایک درخواست دی کہ جس میں اس نے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر امجد خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اس کو ہراساں کیا ہے جس کے بعد وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے 3 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔

دستاویزات کے مطابق وائس چانسلر کے حکم پر قائم ہونے والی انکوائری کمیٹی کے کنوینئر ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور ڈین برائے بیسک اینڈ اپلائیڈ سائنسز ڈاکٹرعابد فرید اور اس کے ممبر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ایسوسی ایٹ پروفیسر صدف راجا، بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کو بنایا گیا تھا۔

کمیٹی نے متاثرہ طالبہ کی درخواست کی روشنی میں انکوائری شروع کی ، مبینہ طور پر ڈاکٹر امجد خان کے عزیز و سابق رجسٹرار ڈاکٹر شاہ مسعود خان نے متاثرہ طالبہ اور والدین پر دباؤ ڈالا کہ مزید رسوائی دونوں جانب کی ہو گی اور اس لئے متاثرہ طالبہ کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا۔

کمیٹی کی جانب سے طالبہ کی درخواست، ان کے واٹس ایپ میسجز سمیت دیگر ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امجد خان سے بھی رابطہ کیا گیا جس میں امجد خان نے اپنا جواب بھی کمیٹی کو دیا۔

اپنے جواب میں انہوں نے کسی بھی قسم کے الزامات کی سختی سے تردید کی جبکہ کمیٹی کی جانب سے دی گئی فائنڈنگ میں لکھا گیا ہے کہ طالبہ ذہنی معذور ہے، اس کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے جبکہ ریکارڈ کے مطابق متاثرہ لڑکی ایک ذہین طالبہ تھی جس کے انٹر میں 900 سے زائد نمبر ہیں، استاد کی مبینہ زیادتی کی بھینٹ چڑھ کر بچی کا تعلیمی مستقل ختم ہو گیا ہے۔

انکوائری کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹر عابد فرید نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ انکوائری ہوئی ہے اور ہمارا کام انکوائری کرنا تھا وہ ہم نے کی اور رپورٹ ہم نے وائس چانسلر آفس میں جمع کرا دی ہے، اب وائس چانسلر کا استحقاق ہے کہ اس پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔

انکوائری کمیٹی کی واحد خاتون ممبر ایسوسی ایٹ پروفیسر صدف راجا نے رجسٹرار سے رابطے کرنے کا کہہ کرموقف دینے سے انکار کر دیا، ہری پور یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر ریاض محمد سے رابطہ کیا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ میں کورونا کی وجہ سے کئی روز تک چھٹیوں پر رہا اور میرے علم میں ایسی کوئی انکوائری ہے نہ ہی اس انکوائری کی رپورٹ میرے پاس آئی ہے۔

اس حوالے سے متاثرہ طالبہ کے خاندانی ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبہ نے ایف ایس سی کیا اور جامعہ ہری پور میں داخلے کے لئے پاس آؤٹ طالبہ کے توسط سے رابطہ بھی ڈاکٹر امجد کے ساتھ ہوا تھا، جس کے بعد اس نے نیوٹریشن میں داخلہ لے لیا تھا، ڈاکٹر امجد نے صابرہ نامی خاتون سے ملوایا جو ہاسٹل میں رہائش کا بندوبست کرنے والی تھی ، صابرہ داخلے کے ایک ماہ کے اندر اندر بچی کو بغیر اجازت پشاور بھی لیکر گئی جس کے بعد جب اہل خانہ کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا تو کہا گیا کہ پشاور نہیں  گئے تھے بلکہ حویلیاں لیکر گئے تھے۔

تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ خاتون طالبہ کو پشاور ہی لیکر گئی تھی، لڑکی کے خاندانی و قریب ترین ذرائع نے کہا کہ لڑکی نے درخواست دی اور اس دوران میر پور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو ڈاکٹر امجد نے درمیان میں ڈال کر درخواست واپس لینے کا کہا اور  ہمیں معلوم تھا کہ انصاف نہیں ملنا اس لئے ہم نے مبہم سی ایک تحریر لکھ کر بات ختم کر دی۔

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جامعہ ہری پور میں وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی ایک ایسے اسسٹنٹ پروفیسر کو ملازمت دیکر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنوا چکے ہیں جس کو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں جنسی ہراسگی کا الزام ثابت ہونے پر نکالا گیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق 6 جنوری 2020 کو بہاؤالدین یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن نمبر PF/18/21-62/Admin/3کے مطابق 19 جنوری 2019 کو منعقدہ سنڈیکیٹ میں ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارش پر 3 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس نے فاریسٹری اینڈ رینج مینجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر واصف نعمان انصاری پر جنسی ہراسگی و بلیک میلنگ کے الزام کی انکوائری کی ۔

 

کمیٹی کے کنوینئر اسلامک ڈیپارٹمنٹ اینڈ لینگویج کے ڈین ڈاکٹر شفقت اللہ کو کنوینئر اور ویٹنری سائنسز کے ڈین ڈاکٹر پروفیسر مسعود اختر اور انسٹیٹیوٹ آف کیمیکل سائنسز سے ممبر پروفیسر ڈاکٹر غزالہ یاسمین نے اپنی سفارشات پیش کیں کہ ڈاکٹر واصف نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طالبہ (ن م) کو ہراساں کیا جس کے ویڈیوز ثبوت موجود ہیں، وہ اپنے الزام کا ریکارڈ پیش نہیں کرسکے اور اس سنگین الزام پر انہیں نوکری سے فارغ کیا جائے۔

دوسری جانب ڈاکٹر واصف نعمان کی ہری پور یونیورسٹی میں بھرتی کا معاملہ سامنے آنے کے بعد اساتذہ ، طلبہ اور والدین کی جانب سے شدید دباؤ سامنے آیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر واصف نعمان کی ہری پور یونیورسٹی میں بھرتی منسوخ کر دی گئی تھی۔

دوسری جانب جامعہ ہری پور یونیورسٹی کی طالبات نے محتسب برائے ہراسانی کشمالہ طارق کے نام ایک درخواست لکھی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جامعہ ہری پور کے پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امجد خان نے طالبہ سے زیادتی بھی کی اور اس کے بعد مزید ظلم یہ ہوا ہے کہ متاثرہ لڑکی اور اہل خانہ سے مل کر ملزمان کے خلاف کارروائی کی یقین دہانی کراتے ہوئے ان سے مکمل بیان لینے کے بجائے جامعہ میں ہی بیٹھ کر معاملات کو نمٹا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے ہم میں بھی عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو گیا ہے۔

ہماری درخواست ہے کہ محتسب برائے ہراسانی کی جانب سے ایک آزادانہ انکوائری کرائی جائے جس میں طالبہ اور اس کے والدین سے مل کر مکمل تفصیلات لی جائیں اور ملزمان کے خلاف کارروائی کی جائے تاکہ آئندہ ہری پور یونیورسٹی میں کوئی بھی استاد اس قسم کی قبیح حرکت نہ کر سکے۔

معلوم رہے کہ پاکستان بھر میں جنسی ہراسگی پر 2 قسم کے قوانین ہیں، تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 اور 2010 میں عورتوں کودفاتر میں ہراساں کیے جانے کے خلاف متعارف کروائے گئے قوانین ہیں اور تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 509 کے تحت عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنا قانوناً جرم ہے، جنسی زیادتی کرنے پر زیادہ سے زیادہ 3 سال قید یا 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

2010 کے عورتوں کو دفاتر میں ہراساں کیے جانے کے خلاف قانون کے تحت ہر کمپنی کو3  افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنانی ہو گی جو درج کی گئی شکایات سے 30 دن کے اندر نمٹے گی، بنائی گئی کمیٹی میں ایک خاتون کا ہونا لازمی ہے، سات دن کے اندر کمپنی کو کمیٹی کے نتائج کا نفاذ کرنا ہو گا، اس قانون کے تحت نشانہ بننے والی خاتون حکومت کی طرف سے مقرر کردہ صوبائی محتسب کو خود بھی شکایت جمع کروا سکتی ہیں ۔

تعلیمی اداروں سمیت دفاتر یا کسی بھی جگہ خواتین کے ساتھ ہراسانی کے بڑھتے مسائل پر قابو پانے یا خواتین کو احساس تحفظ دلانے کے حوالے سے عورت فاؤنڈیشن کی ڈائریکٹر مہناز رحمن کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جنسی ہراسانی کے حوالے سے قوانین 2010 میں بنائے گئے تھے جس میں  آرٹیکل 509 کو بھی شامل کیا گیا تھا جس کے تحت کسی بھی ادارے میں  خواتین کے ساتھ ہونے والی ہراسانی پر باقاعدہ درخواست دیکر مقدمہ درج کرایا جا سکتا ہے۔

تاہم اس کے بعد کسی بھی ادارے میں ایک ہراسانی کمیٹی کا ہونا ضروری ہے اور اس کمیٹی میں ایک عورت کا بطور ممبر ہونا بھی ضروری ہے، ان کا مزید کہنا ہے کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہراسانی کرنے والوں میں ادارے کا سربراہ، استاد یا کولیگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے انکوائری میں شامل اس کے ساتھی، یا اس کا سربراہ اثر انداز ہوتا ہے جس کی وجہ سے حکومت باقاعدہ محتسب برائے ہراسانی کا وفاقی اور صوبائی سطح پر قیام بھی عمل میں لائی ہے جہاں  ایسے کیسز کو جانا چاہیے۔

مزید پڑھیں: جامعہ ہری پور:ڈاکٹر انوارالحسن گیلانی کو دوسری باروائس چانسلر بنائے جانے کے امکانات معدوم

وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی سے رابطہ کیا گیا تاہم انہوں نے موقف دینے سے گریز کیا اور جامعہ کے بارے میں مثبت رپورٹنگ کرنے کا کہا جس کے بعد ڈاکٹر امجد خان سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بھی موقف دینے کے بجائے فون کال بند کردی۔

Related Posts