کراچی: پاکستان کی جامعات میں طالبات کے ساتھ جنسی ہراسگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، پاکستان کے بڑے شہروں کی جامعات میں ہراسگی کے پیش آنے والے واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں جبکہ اندرون شہروں و اضلاع کی جامعات میں پیش آنے والے واقعات کو انتظامیہ دبا دیتی ہے۔
حالیہ دنوں میں اندرون سندھ اور کراچی کی جامعہ میں ایسے ہی دو واقعات رپورٹ ہوئے اور پنجاب کے ضلع ملتان کی بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی میں طالبہ کو جنسی ہراساں کرنے پر بغیر سزا دیئے اسسٹنٹ پروفیسر کو فارغ کرنے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
جامعہ ہری پور میں بھی ایسا واقعہ رپورٹ ہوا جس کو دبا دیا گیا ہے، ہری پور سمیت خیبر پختون خوا کے دیگر اضلاع میں خواتین کو تعلیم حاصل کرنے میں شدید مسائل کا سامنا ہے، جس کے بعد اب جامعہ ہری پور میں کشمیرسے آئی طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کا واقعہ سامنے آیا ہے جس سے طالبات کیلئے اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مزید مسائل پیدا ہونے کے خدشات ہیں۔
کشمیر سے ہری پور یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے آنے والی طالبہ (ہ ب) کے ساتھ مبینہ طور پر پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈاکٹر امجد خان نے زیادتی کی جس کے بعد متاثرہ طالبہ نے وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی سے تحریری شکایت کی اور معاملہ والدین کے علم میں آنے کے بعد والدین نے بیٹی کو مزید تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔
جامعہ ہری پور کے پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ میں پہلے سمسٹر کی طالبہ (ہ ب) کے ساتھ مبینہ زیادتی کا انکشاف اس وقت ہوا جب طالبہ نے وائس چانسلر کو ایک درخواست دی کہ جس میں اس نے پبلک ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر امجد خان پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اس کو ہراساں کیا ہے جس کے بعد وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی نے 3 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی۔
دستاویزات کے مطابق وائس چانسلر کے حکم پر قائم ہونے والی انکوائری کمیٹی کے کنوینئر ایگری کلچر ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر اور ڈین برائے بیسک اینڈ اپلائیڈ سائنسز ڈاکٹرعابد فرید اور اس کے ممبر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے ایسوسی ایٹ پروفیسر صدف راجا، بیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر شفیق احمد کو بنایا گیا تھا۔
کمیٹی نے متاثرہ طالبہ کی درخواست کی روشنی میں انکوائری شروع کی ، مبینہ طور پر ڈاکٹر امجد خان کے عزیز و سابق رجسٹرار ڈاکٹر شاہ مسعود خان نے متاثرہ طالبہ اور والدین پر دباؤ ڈالا کہ مزید رسوائی دونوں جانب کی ہو گی اور اس لئے متاثرہ طالبہ کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہی نہیں ہونے دیا گیا۔
کمیٹی کی جانب سے طالبہ کی درخواست، ان کے واٹس ایپ میسجز سمیت دیگر ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے پبلک ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر امجد خان سے بھی رابطہ کیا گیا جس میں امجد خان نے اپنا جواب بھی کمیٹی کو دیا۔
اپنے جواب میں انہوں نے کسی بھی قسم کے الزامات کی سختی سے تردید کی جبکہ کمیٹی کی جانب سے دی گئی فائنڈنگ میں لکھا گیا ہے کہ طالبہ ذہنی معذور ہے، اس کے ساتھ نفسیاتی مسئلہ ہے جبکہ ریکارڈ کے مطابق متاثرہ لڑکی ایک ذہین طالبہ تھی جس کے انٹر میں 900 سے زائد نمبر ہیں، استاد کی مبینہ زیادتی کی بھینٹ چڑھ کر بچی کا تعلیمی مستقل ختم ہو گیا ہے۔
انکوائری کمیٹی کے کنوینئر ڈاکٹر عابد فرید نے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ انکوائری ہوئی ہے اور ہمارا کام انکوائری کرنا تھا وہ ہم نے کی اور رپورٹ ہم نے وائس چانسلر آفس میں جمع کرا دی ہے، اب وائس چانسلر کا استحقاق ہے کہ اس پر کیا کارروائی کرتے ہیں۔
انکوائری کمیٹی کی واحد خاتون ممبر ایسوسی ایٹ پروفیسر صدف راجا نے رجسٹرار سے رابطے کرنے کا کہہ کرموقف دینے سے انکار کر دیا، ہری پور یونیورسٹی کے قائم مقام رجسٹرار ڈاکٹر ریاض محمد سے رابطہ کیا گیا جس پر انہوں نے بتایا کہ میں کورونا کی وجہ سے کئی روز تک چھٹیوں پر رہا اور میرے علم میں ایسی کوئی انکوائری ہے نہ ہی اس انکوائری کی رپورٹ میرے پاس آئی ہے۔
اس حوالے سے متاثرہ طالبہ کے خاندانی ذرائع نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ طالبہ نے ایف ایس سی کیا اور جامعہ ہری پور میں داخلے کے لئے پاس آؤٹ طالبہ کے توسط سے رابطہ بھی ڈاکٹر امجد کے ساتھ ہوا تھا، جس کے بعد اس نے نیوٹریشن میں داخلہ لے لیا تھا، ڈاکٹر امجد نے صابرہ نامی خاتون سے ملوایا جو ہاسٹل میں رہائش کا بندوبست کرنے والی تھی ، صابرہ داخلے کے ایک ماہ کے اندر اندر بچی کو بغیر اجازت پشاور بھی لیکر گئی جس کے بعد جب اہل خانہ کی جانب سے ناراضگی کا اظہار کیا گیا تو کہا گیا کہ پشاور نہیں گئے تھے بلکہ حویلیاں لیکر گئے تھے۔
تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ خاتون طالبہ کو پشاور ہی لیکر گئی تھی، لڑکی کے خاندانی و قریب ترین ذرائع نے کہا کہ لڑکی نے درخواست دی اور اس دوران میر پور سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کو ڈاکٹر امجد نے درمیان میں ڈال کر درخواست واپس لینے کا کہا اور ہمیں معلوم تھا کہ انصاف نہیں ملنا اس لئے ہم نے مبہم سی ایک تحریر لکھ کر بات ختم کر دی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی جامعہ ہری پور میں وائس چانسلر ڈاکٹر انوار الحسن گیلانی ایک ایسے اسسٹنٹ پروفیسر کو ملازمت دیکر ایسوسی ایٹ پروفیسر بنوا چکے ہیں جس کو بہاؤالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان میں جنسی ہراسگی کا الزام ثابت ہونے پر نکالا گیا تھا۔
دستاویزات کے مطابق 6 جنوری 2020 کو بہاؤالدین یونیورسٹی کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن نمبر PF/18/21-62/Admin/3کے مطابق 19 جنوری 2019 کو منعقدہ سنڈیکیٹ میں ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارش پر 3 رکنی کمیٹی بنائی گئی جس نے فاریسٹری اینڈ رینج مینجمنٹ کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر واصف نعمان انصاری پر جنسی ہراسگی و بلیک میلنگ کے الزام کی انکوائری کی ۔